نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک) بھارتی ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ نئی دہلی میں چھائے دھند اور دھوئیں کے بادلوں کی وجہ سے سانس کے مسائل کے شکار افراد کی تعداد میں کہیں زیادہ اضافہ ہو چکا ہے اور اس سے انسانی زندگی پر انتہائی مضر اثرات پڑ رہے ہیں۔بھارتی ٹی وی کے مطابق رواں ہفتے نئی دہلی میں شدید دھوئیں اور دھند کے بعد ہسپتالوں میں تنفس کے مسائل سے جڑے مریض اپنے علاج کے لیے انتظار گاہوں میں بیٹھے کھانستے نظر آ رہے ہیں۔
نئی دہلی کے سرکاری ہسپتال ولبھ بھائی پٹیل انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹروں نے کہاکہ فضائی آلودگی کی سطح میں رواں ہفتے ڈرامائی اضافے کے بعد یہاں آنے والے مریضوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہے۔حکام کے مطابق موسمی حالات اور فصلوں کی کٹائی کے بعد کھیتوں میں بھوسے کو آگ لگا کر جلا دینے کے سیزن کی وجہ سے قریبی علاقوں میں نظام تنفس کی بیماریوں میں شدید اضافہ دیکھا گیا ہے۔اس ہسپتال میں زیرعلاج ایک دکان دار منوج کھاتی نے بتایا کہ انہوں نے ابتدا میں اپنی کھانسی کو عمومی سمجھا مگر وہ رفتہ رفتہ بگڑتی گئی۔ اب ڈاکٹروں نے انہیں بتایا ہے کہ وہ سانس کی بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔ 46 سالہ کھاتی نے بتایاکہ تین دن تک میری کھانسی بالکل نہ رکی۔ مجھے لگا جیسے میں مر ہی جاؤں گا۔ نئی دہلی کی فضا کو آلودہ کرنے والے مضرصحت ذرات سانس کی نالی کی بندش کا سبب، امراض قلب اور پھیپھڑوں کے سرطان کا باعث بن سکتے ہیں۔ نئی دہلی میں رواں ہفتے ان ذرات کی شرح 500 کی حد عبور کرتی رہی ہے اور رواں ہفتے ایک موقع پر تو یہ شرح 1000 سے بھی اوپر چلی گئی تھی۔ یہ بات اہم ہے کہ ان ذرات کی سطح 300 سے لے کر 500 تک ہو تو اسے ’مضر‘ سمجھا جاتا ہے، جب کہ 500سے اوپر اسے باقاعدہ طور پر ایک ’خطرہ‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق PM2.5 کی زیادہ سے زیادہ سطح 25 تک قابل برداشت ہے
اور اگر کوئی بھی شخص اس سے زائد سطح میں 24 گھنٹوں سے زائد رہے، تو اس کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ہسپتال انتظامیہ کے مطابق سانس سے متعلقہ امراض میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں رواں ہفتے غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اور ان میں سے زیادہ تر کو کھانسی اور سانس کی نالی میں سوزش کی شکایات کا سامنا تھا۔نئی دہلی کے سر گنگا رام ہسپتال میں سانس کی بیماریوں کے ماہر معالج اروِند کمار کے مطابق اسموگ کی وجہ سے انسانی صحت پر پڑنے والے اصل اثرات کا علم آنے والے برسوں میں ممکن ہو گا، کیوں کہ ایسی آلودگی آپ کو ’آہستہ آہستہ ہلاک‘ کرتی ہے۔