لندن(این این آئی)برطانیہ کے وزیر خارجہ بورس جانسن کو ایک تنازع کا سامنا ہے اور اپنے تازہ ترین بیان میں انہوں نے کہاہے کہ انھیں ایرانی نڑاد برطانوی خاتون کے بارے میں بات کرتے ہوئے زیادہ واضح الفاظ استعمال کرنے چاہیے تھے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے بیان کے بعد ایرانی حکام خاتون کی قید میں اضافہ کرنے
میں حق بجانب ہیں۔یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے بورس جانسن نے کہا تھا کہ نازنین زغاری ریٹکلف نامی خاتون ایران میں صحافیوں کو تربیت دے رہی تھیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق نازنین کے شوہرریٹکلف نے کہا کہ ایرانی حکام وزیر خارجہ بورس جانسن کے الفاظ ان کی اہلیہ کی قید کی سزا میں اضافہ کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔برطانیہ کی حزب اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی کا کہنا تھا کہ وزیرخارجہ کے الفاظ ناقابل قبول ہیں، تاہم وزیر اعظم ٹریسا مے کے دفتر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو بورس جانسن پر مکمل اعتماد ہے۔یاد رہے کہ مسز نازین زغاری ریٹکلف کو ایران میں پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ اگرچہ سرکاری طور پر ایران نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ ان پر الزام کیا ہے، تاہم عام خیال یہی ہے کہ نازنین پر الزام ہے کہ انھوں نے ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی تھی۔ رچرڈ ریٹکلف کا مؤقف ہے کہ ان کی اہلیہ بے قصور ہیں اور جب انھیں سنہ 2016 میں گرفتار کیا گیا تو وہ ایران اپنے گھر والوں سے ملنے گئی ہوئی تھیں۔گزشتہ ہفتے، چار نومبر کو جب انھیں عدالت میں طلب کیا گیا تو نازنین کو بتایا گیا کہ برطانوی وزیر اعظم کے الفاظ اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ ایران میں کیا کر رہی تھیں۔برطانوی دفتر خارجہ نے کہا کہ جانسن نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ انھیں زیادہ واضح بات کرنی چاہیے تھی۔وزیر خارجہ نے خارجہ امور کی کمیٹی کو بتایا کہ انھوں نے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کو فون کیا اور انھیں بتا دیا
ہے کہ ان کے الفاظ یہ جواز فراہم نہیں کرتے کہ نازنین ریٹکلف کی سزا میں اضافہ کیا جائے۔ جانسن کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس معاملے پر بات کرنے کے لیے اس سال کے آخر تک ایران کا دورہ کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے بورس جانسن نے کمیٹی کو بتایا کہ ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ صحافیوں کو تربیت کوئی جرم نہیں ہوتا، یہ نہیں کہ نازنین زغاری ریڈکلف واقعی صحافیوں کو تربیت دے رہی تھیں۔دفتر خارجہ
کے بیان میں مزید کہا گیا کہ جواد ظریف نے بورس جانسن کو بتایا کہ گذشتہ ہفتے کو نازنین زغاری ریڈکلف کے معاملے میں جو عدالتی کارروائی ہوئی اس کا مسٹر جانسن کے بیان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔لیبر پارٹی کی جانب سے وزیر خارجہ بورس جانسن کو شدید تنقید کا سامنا ہے اور پارٹی کے کئی ارکان کا مطالبہ ہے کہ مسٹر جانسن کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔