پیرس(این این آئی)گذشتہ کچھ برسوں کے دوران جب مختلف عرب اور مسلمان ملکوں سے پناہ گزینوں کی مغربی دنیا کی طرف نقل مکانی شروع ہوئی، اس کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی شکلیں بھی سامنے آئیں تو فرانس جیسے ممالک کے بارے میں اسلام سے متعلق سوچ بدلنے لگی۔ حالانکہ فرانس میں صلاح
الدین ایوبی کے دور اسلام بھی تھا اور مساجد بھی تھیں۔ اللہ کا نام لینے والے بھی تھے اور اسلام کے علم بردار بھی رہتے تھے، مگر وہاں پر مساجد کو ہمیشہ اعتدال پسندی اور اسلامی حلم وبرد باری کی علامت سمجھا جاتا تھا۔عرب ٹی وی کے مطابق عالم اسلام برد باری اور الہام کا پیغام ہوا کرتا تھا۔ مغربی لٹریچر میں اسلام کو بدیسی وجدان اور جبلت سمجھا جاتا۔ فرانسیسی ادب میں ’مکہ‘ کشش، جذب اور حیران کرنے والی جگہوں کے معنوں استعمال ہوتا۔ فرانس میں مستشرقین کا کے لٹریچر کا ماخذ اسلامی ثقافت کے سوا اور کوئی چیز نا تھی۔ مستشرقین اسلامی سوسائٹی سے متاثر ہونے والا سب سے بڑا طبقہ سمجھا جاتا۔مصرکے نابلیوں کی مہم فہم دین اسلام میں اتنی ہی مدد کی جتنی کہ فراعنہ کے دور کی زبان کی الجھنیں سمجھنے میں مدد ملی۔فرانس میں مساجد پر نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ اس یورپی ملک میں صدیوں سے مساجد موجود تھیں مگر 2016ء میں رجسٹرڈ مساجد کی تعداد 2200 تک جا پہنچی تھی۔ بہت سی چھوٹی مساجد جو رجسٹرڈ نہیں کی گئیں تھی ان کے علاوہ ہیں۔ مساجد کی تعمیر گذشتہ چند عشروں کے دوران بڑھی کیونکہ 1970ء تک فرانس میں صرف ایک سو مساجد تھیں۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس کی بلدیہ میں اسلامی کونسل کے چیئرمین اور مسجد الکبیر کے امام دلیل ابو بکر الجزائری کا کہنا ہے کہ فرانس میں دو سال کے دوران مساجد کی تعداد دوگنا ہوئی۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ فرانس میں ویران گرجا گھروں کو مساجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ یہاں پر 2500 مسلمانوں کے لیے صرف ایک مسجد ہے حالانکہ ہزاروں کی تعداد میں سالانہ کی بنیاد پر گرجا گھر خالی ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فرانس میں مسجدیں آباد اور چرچ ویران ہو رہے ہیں۔ فرانس کے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی تعداد 40 لاکھ سے 70 لاکھ کے درمیان ہے۔ تاہم حقیقی تعداد 55 لاکھ کے قریب ہے۔ ان میں سے 30 لاکھ سے زاید صوم وصلواۃ کے پابند مسلمان ہیں۔ فرانس میں مسلمانوں کی اصل تعداد معلوم کرنا اس لیے مشکل ہے کہ ملک کا قانون نسل یا مذہب کی بنیاد پر کسی طبقے کی مردم شماری کی اجازت نہیں دیتا۔فرانس میں سب سے بڑی مسجد پیرس کے قریب ایفری اسکوائر میں واقع ہے۔ اسی جگہ پر 1995ء میں کیتھڈرل چرچ تعمیر کیا گیا۔ بیسویں صدی کا فرانس میں یہ واحد نیا چرچ ہے۔ بیسویں صدی ہی میں مسلمانوں کی بڑی تعداد نے فرانس میں آنا شروع کیا۔فرانس کی سب سے قدیم مساجد میں ’مسجد نور الاسلام‘ ہے جو سمندر کے عقب میں جزیرہ ریونیون کے شہرسان ڈونی میں 1905? میں تعمیر کی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب فرانس میں مذہب اور سیاست کو الگ کرنے کی طویل کشمکش اپنے اختتام کو پہنچی اور فرانس میں سیاست کو مذہب سے آزاد کیا گیا۔ دوسرے الفاظ میں ہم اسے سیکولر قانون یا آج کے دور میں الحاد کا نام دیتے ہیں نافذ
العمل ہوا۔ البتہ موجودہ فرانس کے علاقے الزاس اور موزیل اس وقت جرمنی کے زیرانتظام تھے۔ اس لیے ان پر سنہ 1905ء کا فرانسیسی قانون لاگو نہیں ہوا۔فرانس کے مایوت شہر میں کئی پرانی مساجد موجود ہیں۔سیکولر فرانس کے دور میں فرانس میں مساجد کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ پیرس کی جامع مسجد الکبیر دراصل پہلی جنگ عظیم کے دوران فرانس کے پرچم تلے لڑتے ہوئے ایک لاکھ مسلمان سپاہیوں کے قتل کی یاد گار ہے۔ یہ مسجد مراکش کے سلطان مولائی یوسف نے 1926ء میں تعمیر کرائی اور اس کی تعمیر کی مکمل نگرانی کی۔ مسجد میں ایک اسپورٹس گراؤنڈ اور ایک بڑا حوض بھی بنایا گیا۔ فرانسیسی صدر یاک شیراک کے دور میں مسجد الکبیر الجزائری مسلمانوں کے حوالے کرنے کی اجازت دی گئی۔ یہ مسجد الجزائری مسلمانوں کو دینے کے پیچھے پیرس کی ایک خاص حکمت عملی کارفرما تھی۔ فرانس الجزائزی عوام کے غم وغصے کو کم کرنا چاہتا تھا۔ دیگر حربوں میں ایک حربہ فرانس کی مساجد کی نگرانی الجزائریوں کو دینا بھی شامل تھا۔فرانس کے علاقے بوزانسی میں ایک مسجد کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ مسجد مشہور مسلمان سپہ سالار صلاح الدین ایوبی کے دور میں 12 ویں صدی عیسوی میں تعمیر کی گئی تھی۔فرانس میں 42 ہزار گرجا گھر ہیں۔ ان میں 40 ہزار گرجا گھر ریاست کے کنٹرول میں ہیں۔ ان میں دو ہزار چرچ کیھتولیک کے پاس ہیں۔ گویا مسلمانوں کی مساجد ان کے گرجا گھروں سے زیادہ ہیں۔