لندن (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن نے انکشاف کیا ہے کہ امریکا نے عراق جنگ کا حصہ بننے پر آمادہ کرنے کے لیے برطانیہ کو گمراہ کن معلومات فراہم کیں۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق گورڈن براؤن نے یہ انکشاف اپنی نئی کتاب میں کیا۔گورڈن براؤن نے کہا کہ عراق جنگ کا حصہ بننے کے لیے برطانیہ کو نہ صرف غلط معلومات فراہم کی گئیں بلکہ گمراہ بھی کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ امریکی خفیہ ایجنسی نے دعویٰ کیا تھا کہ
عراقی حکومت کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں لیکن اس دعوے کو ثابت کرنے کے ٹھوس شواہد برطانیہ کے جنگ کا حصہ بننے سے قبل فراہم نہیں کیے گئے۔خیال رہے کہ مارچ 2003 میں عراق جنگ کا آغاز ہوا تھا اور اس جنگ میں برطانیہ کے 179 فوجی مارے گئے تھے۔ امریکا اور برطانیہ نے عراقی صدر صدام حسین پر الزام عائد کیا تھا کہ ان کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ روابط ہیں تاہم اب گورڈن براؤن نے انکشاف کیا ہے کہ اس وقت وہ چانسلر کے عہدے پر فائز تھے اور اس عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد انہیں ان اہم دستاویزات کو دیکھنے کا موقع ملا۔گورڈن براؤن کے مطابق امریکا کی جانب سے برطانیہ کو یہ بتایا گیا تھا کہ انہیں معلوم ہے کہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کہاں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یاد ہے میں اس وقت یہ سوچ رہا تھا کہ شاید مجھے اس مقام کا پتہ فراہم کیا جاسکے گا جہاں ہتھیار موجود ہیں لیکن اس وقت کے امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمس فیلڈ کی تیار کردہ رپورٹ میں ایسا کچھ نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے عراق کے معاملے میں ٹھوس شواہد کے بجائے مفروضوں پر انحصار کیا۔ امریکا میں بعض حلقوں کو اس بات کا علم تھا کہ عراق کے پاس خطرناک ہتھیار نہیں ہیں لہٰذا ایسی صورت میں امریکا نے برطانیہ کو اس اہم ترین معاملے پر گمراہ کیا۔گورڈن براؤن نے دعوی کیا کہ اگر یہ بات پہلے معلوم ہوتی کہ عراق کے پاس قابل استعمال کیمائی، بائیولوجیکل یا جوہری ہتھیار موجود نہیں ہیں تو شاید برطانیہ اس جنگ کا حصہ نہیں بنتا۔