ڈھاکہ (مانیٹرنگ ڈیسک) بنگلہ دیش کے پڑوسی ملک میانمار میں رواں برس اگست سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے فوجی کریک ڈاؤن کے بعد چھ لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔میانمار کی ریاست رخائن سے آنے والے مہاجرین کی تازہ لہر میں مزید ہزاروں پناہ گزینوں نے بنگلہ دیش کا رخ کیا ۔ان پناہ گزینوں کی روز بروز بڑھتی تعداد کے باعث مہاجر کیمپوں میں رہائش، کھانے پینے اور بیت الخلاء کی سہولیات ناکافی ہیں۔
مقامی حکام کا کہنا ہے کہ اگر کیمپوں میں خاندانی منصوبہ بندی پر عمل نہیں کرایا گیا تو صورت حال مزید خراب ہو گی۔بنگلہ دیش کے ضلع کوکس بازار میں جہاں ان پناہ گزینوں کو کیمپوں میں رکھا گیا ہے ٗفیملی پلاننگ کے سربراہ پنتو کانتی بھٹاچرجی کا کہنا ہے کہ ان روہنگیا مہاجرین کو خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے آگاہی بہت کم ہے۔بھٹاچر جی کا کہنا تھا کہ کیمپوں میں بڑے خاندان کا ہونا ایک معمول کی بات ہے۔ کوکس بازار میں فیملی پلاننگ کے سربراہ کے مطابق بعض والدین کے انیس بچے بھی ہیں اور متعدد روہنگیا مہاجرین ایک سے زائد بیویاں رکھتے ہیں ان مقامی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے حکومت سے روہنگیا مردوں کی نس بندی کرانے اور خواتین کے لیے بھی اسی نوعیت کی منصوبہ بندی کی درخواست کی ہے۔بہت سے پناہ گزینوں نے بتایا کہ اْن کے خیال میں خاندان بڑا رکھنے سے کیمپوں میں اْن کی بقا قائم رکھنے میں مدد ملے گی جہاں کھانے پینے کی اشیا تک رسائی روزانہ کی جنگ ہے اور اکثر بچوں کو ہی سامان خورد و نوش لانے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔دیگر کئی روہنگیا پناہ گزینوں کا موقف ہے کہ حمل روکنا اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔ فرحانہ سلطانہ مہاجر کیمپوں میں فیملی پلاننگ کے لیے کام کرنے والی ایک رضا کار ہیں۔ سلطانہ کا کہنا ہے کہ کیمپوں میں بہت سی خواتین فیملی پلاننگ کو گناہ سمجھتی ہے۔بنگلہ دیشی حکام کا کہنا ہے کہ کیمپوں میں مہاجرین کی آمد کے بعد سے چھ سو بچوں کی پیدائش ہو چکی ہے جبکہ بیس ہزار مہاجر خواتین حاملہ ہیں۔