قاہرہ(این این آئی)مصر کی سب سے بڑی دینی درس گاہ جامعہ الازھر سے وابستہ علماء بعض اوقات اپنے عجیب وغریب فتاویٰ اور بیانات کی وجہ سے کوئی ایسی بحث چھیڑ دیتے ہیں جس کی گونج سات سمندر پار بھی سنائی دیتی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق ایسا ہی ایک متنازع بیان حال ہی میں جامعہ الازھر میں تقابل فقہ کے استاد ڈاکٹر سعد الدین الھلالی نے دیا جس سے ملک کے مذہبی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
ڈاکٹر الھلالی نے دعویٰ کیا کہ تاریخی کتب میں جس شخص کو فرعون کہا جاتا ہے وہ مصری نہیں بلکہ خراسانی تھا اور اس کا اصل نام ولید بن ریان تھا۔ایک انٹرویو میں علامہ الھلالی نے کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں مصری فرعون کا اپنا وطن افغانستان اور ایران کے علاقوں پر مشتمل صوبہ خراسان تھا اور اس کا اصل نام ولید بن ریان بتایا جاتا ہے۔انہوں نے فرعون کے مصری نہ ہونے اور اس کا نام ولید ہونے کے بارے میں تین کتب کے حوالے پیش کیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے فرعون کے بارے میں یہ باتیں فیروز آبادی کی کتاب ’بصائر ذوی التمییز فی لطائف کتاب العزیز‘ ابن منظور کی ’لسان العرب‘ اور الفیومی کی ’الصباح المنیر‘ میں پڑھی ہیں۔ ان تینوں کتابوں میں فرعون کا نام مصعب بن الولید یا ولید بن ریان لکھا گیا ہے۔ڈاکٹر الھلالی کا بیان مصر کے مذہبی حلقوں میں ایک نئی بحث کا موضوع ہے۔ فرعون کے بارے میں ان کا یہ دعویٰ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند ماہ قبل سوڈان کے ایک سابق وزیر احمد بلال نے دعویٰ کیا تھا کہ فرعون مصری نہیں بلکہ سوڈانی تھا۔مصری علماء آثار نے مبغلین پر زور دیا کہ وہ مذہبی مسائل پر لوگوں کی رہ نمائی پر توجہ دیں اور ایسے متنازع موضوعات نہ چھیڑیں جس سے لوگوں میں اسلامی تاریخ کے بارے میں نئی الجھنیں پیدا ہوں۔