کراچی /کابل (آئی این پی ) افغانستان کی بگرام جیل میں بے گناہ قید کیے گئے پاکستانی معاوضے کے منتظرہیں ،بگرام کے نام سے مشہور اس امریکی جیل میں 3 ہزار افراد قیدوبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔اس جیل میں امریکی فوج نے ہزاروں افغان شہریوں سمیت تیسری دنیا کے تین ممالک کے 60 باشندوں کو بھی قید میں رکھا، جن میں سے 45 پاکستانی ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں کھڑے ہوکر سابق امریکی
صدر براک اوباما نے گوانتاناموبے جیل کو بند کرنے کا عہد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس جنگ کو بھی، دیگر تمام جنگوں کی طرح بالآخر ختم ہونا ہی ہے۔چار سال بعد ایک اور امریکی صدر نے دنیا سے وعدہ کیا کہ ہم اس جیل کو دوبارہ کھولیں گے اور اس میں ان افراد کو قید کریں گے، جو دنیا کو غیر محفوظ کر رہے ہیں۔اور پھر جب دنیا کی توجہ اس جیل کی طرف ہوئی، جسے چلانے کے لیے سالانہ 445 ملین ڈالر کے اخراجات کیے جاتے ہیں،تو افغان صوبے پروان میں امریکا کی ایک اور تاریک جیل بھی سامنے آئی۔بگرام کے نام سے مشہور اس امریکی جیل میں 3 ہزار افراد قیدوبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔اس جیل میں امریکی فوج نے ہزاروں افغان شہریوں سمیت تیسری دنیا کے تین ممالک کے 60 باشندوں کو بھی قید میں رکھا، جن میں سے 45 پاکستانی تھے۔بگرام جیل میں 14 سالہ قید کے دوران امانت اللہ کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ رابطے میں رہنے کے لیے صرف خط لکھنے اور ان کے خطوط وصول کرنے کی اجازت سمیت ماہانہ صرف ایک بار اسکائپ پر بات کرنے کی اجازت تھی۔تاہم امانت اللہ کو حاصل ان سہولیات کی بھی کڑی نگرانی کی جاتی تھی۔امانت اللہ نے 14 سالہ قید کے دوران کتنی صعوبتیں برداشت کیں اور ان پر کیا کیا گزری۔بگرام جیل میں 9 سالہ قید کے دوران عبدالحلیم سیف اللہ کو کئی کئی ہفتوں تک مسلسل ذہنی و جسمانی تشدد سمیت دبا، پریشانی اور اذیت کا سامنا کرنا
پڑا۔عبدالحلیم سیف اللہ نے 9 سال تک کس طرح ظلم و ستم برداشت کیے۔امریکا میں نائن الیون حملے کیبعد بگرام جیل واشنگٹن کی غلط خارجہ پالیسیوں کی علامت کے طور پر سامنے آئی، ساتھ ہی یہ جیل پاکستانی حکومت کی مجموعی لاپروائی کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔اس جیل میں پاکستان کے متعدد شہری کسی الزام، وکلا تک رسائی، اہلخانہ سے روابط اور رہائی کے امکانات کے بغیر قید رہے۔قانونی کارروائیوں سے بچنے کے لیے ان
قیدیوں میں سے زیادہ تر کو شہری تسلیم کیے جانے کے بجائے گھوسٹ مانا گیا۔تاہم اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے پاکستانی سفیروں نے 2010 سے قبل اس جیل کا صرف ایک بار دورہ کیا۔سرحد کے دوسری جانب وہ 45 خاندان، جو اپنے پیاروں کے اچانک لاپتہ ہونے پر نوحہ کناں تھے، جن کو غیر قانونی طریقے سے قانون کی حکمرانی کو نظر انداز کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا اور جنہیں کوئی قونصلر رسائی نہیں دی گئی، یہ تمام
عوامل ہمارے سفیروں سے بس ایک دورہ ہی کروا سکے۔بگرام جیل کو قانون سے بالائے طاق رکھا گیا، امریکیوں کو دہشت گردی کی کارروائیوں کے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں تھی، انہیں بس افراد چاہیے تھے، وہ دنیا کو دکھانا چاہتے تھے کہ وہ اچھائی کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں، انہوں نے 45 پاکستانیوں سمیت دیگر بیگناہ افراد کو قید کرکے محسوس کیا، جیسے وہ یہ جنگ جیت رہے ہیں۔اور تو اور قید کیے گئے 45 بے گناہ
پاکستانیوں کو جس بورڈ کے سامنے پیش کیا جاتا، اس میں کوئی وکیل نہیں تھا، وہ بورڈ صرف امریکی فوجی اہلکاروں پر مشتمل تھا اور جب اس بورڈ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان کے پاس ان معصوم شہریوں کو قید رکھنے کی کوئی وجہ نہیں پھر بھی انہیں آزاد نہیں کیا گیا، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ امریکی حکومت انہیں چھوڑنے کی اجازت نہیں دے گی۔لیکن اس کے باوجود ایک ایسا ادارہ تھا، جو اس معاملے کو سن رہا تھا، لاہور ہائی
کورٹ تقریبا ہر ہفتے اس معاملے پر اس وقت تک سماعت کرتی رہی، جب تک حکومت پاکستان نے ایکشن نہ لیا۔ جسٹس پروجیکٹ پاکستان (جے پی پی) کے تحت چار سالوں کی میڈیا مہم اور سرتوڑ کوششوں کے بعد بالآخر 42 پاکستانیوں کو بگرام سے کسی الزام کے بغیر رہائی مل گئی۔لیکن جب یہ ٹوٹے بکھرے لوگ وطن لوٹے تو بگرام جیل میں برداشت کی جانے والی صعوبتوں کے باعث وہ کافی عرصے تک کمزور اور بیمار
رہے، درحقیقت یہ لوگ ماضی کو بھلانے اور اس صدمے سے نکلنے میں ناکام رہے۔میرے دو مکل ایسے تھے جو جسمانی زخموں کی وجہ سے کوئی کام کرنے سے قاصر تھے، جبکہ کئی افراد سالوں تک ذہنی بیماری میں مبتلا رہے۔رہائی کے بعد بھی انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا گیا اور بیشتر کا نام فورتھ شیڈول میں ڈال دیا گیا، جو اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ وہ اپنی تمام تر سرگرمیوں سے متعلق ہفتہ وار پولیس اسٹیشن میں رپورٹ
جمع کرائیں گے۔ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ ابھی تک امریکا، پاکستان اور افغانستان میں سے کسی بھی حکومت نے معصوم لوگوں کے ساتھ ناانصافی کرنے اور اپنے مقاصد میں ناکامی پر کوئی معذرت نہیں کی۔میرے موکلوں سے بے گناہ ہونے کے باوجود جیل میں گزارے گئے ہر دن کے معاوضے کی ادائیگی کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن تاحال انہیں ایک ڈالر بھی نہیں دیا گیا۔گوانتاناموبے جیل میں قید کینیڈا کے شہری عمر خدر کو بے گناہ سزا ہونے
پر 8 ملین ڈالر کا معاوضہ ادا کیا جاچکا ہے، عمر خضر نے جب مقدمہ دائر کیا تھا تو کینیڈا کی سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ کینیڈین حکام نے عمر خدر کے حقوق کی خلاف ورزی کی۔ان بے گناہ قیدیوں کے نقصان کی تلافی ضروری ہے، اس لیے نہیں کہ انہیں غیرقانونی طریقے سے صرف امریکا کی خوشنودی کی خاطر آگ میں جھونکا گیا، بلکہ ان کے محفوظ مستقبل کے لیے بھی انہیں نقصان پہنچائے جانے کا لازمی معاوضہ ملنا
چاہیے۔انہیں کم سے کم ایک یمنی خاندان کو امریکی حکومت کی جانب سے دیے گئے ایک لاکھ 10 ہزار امریکی ڈالر جتنا معاوضہ ملنا چاہئیے، جو امریکا نے 2013 میں کیے گئے ڈرون حملے کے نتیجے میں متاثرہ خاندان کو دیا تھا۔پاکستان کے صوبہ پنجاب کی حکومت کی جانب سے دہشت گردی سے متاثرہ افراد کو جس طرح سول وکٹم ایکٹ کے تحت معاوضہ دیا جاتا ہے، اس طرح انہیں بھی معاوضہ ملنا چاہئیے تھا، ان کے ساتھ
ہونے والی ناانصافی صرف غیرقانونی حراست تک محدود نہیں، اس طرح کے اقدامات کو ختم بھی ہونا چاہیے۔آج 17 سال بعد ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں، جسے پوسٹ نائن الیون دنیا کہا جاتا ہے، آج ہماری گفتگو اور بحث و مباحثہ نائن الیون کی جنگوں کے بعد کی صورتحال کے حوالے سے ہوتا ہے۔اب جہاں زیادہ سے زیادہ ہلاکتیں ہمیں انسانیت سے محروم کر رہی ہیں، وہیں ہم نے ایسے حالات کی درجہ بندی کرکے انہیں کولیٹرل
ڈیمیجز کا نام دے دیا ہے، جو کسی مشکل وقت میں خاص مقصد کے لیے اٹھائیگئے خصوصی اقدامات کو ظاہر کرتا ہے۔یہ بھی ایک بہت عجیب بات ہے کہ بدترین تشدد کا شکار بننے والے مٹھی بھر افراد ہی ان لوگوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، جنہوں نے ان پر ستم ڈھائے اور اب وہ اکیلے ہی ان سے لڑ رہے ہیں۔وہ ایسا خود کبھی نہیں کرتے، اگر ان کی حکومت یہ کام کرتی اور ان کا ساتھ دیتی۔سارہ بلال لاہور میں انسانی حقوق کے
حوالے سے کام کرنے والی تنظیم جسٹس پروجیکٹ پاکستان (جے پی پی) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔جے پی پی نے بگرام جیل سے پاکستانیوں کی وطن واپسی کے لیے اہم کردار ادا کیا، اس جیل سے پاکستانیوں کی آزادی دنیا میں سب سے زیادہ تھی۔