کراچی(این این آئی)آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق صدرجنرل (ریٹائرڈ)پرویزمشرف نے کہا ہے کہ سارک جنوبی ایشیا کی واحد نمائندہ تنظیم ہے لیکن پاک بھارت اختلاف کے باعث یہ مکمل طورپر غیر فعال ہے۔پاکستان اور بھارت میں اختلاف جاری ہے دونوں 3 جنگیں لڑچکے ہیں ان اختلافات کے باعث سارک فعال کردار ادا نہیں کر پارہی ہے۔ مذہبی تقسیم پرخلیجی ممالک اب خود کوتنہا محسوس کر رہے ہیں،
ہرجگہ مسلمان مسائل کا شکارہیں اورحال ہی پیدا ہونے والی صورت حال میں فلسطین ، کشمیر، کوسووو، عراق اور شام مسائل کا شکار ہیں دہشت گردی غریب آدمی کا ہتھیار ہے۔خطے میں پیدا ہونے والی نئی صورت حال پراپنے ردعمل میں سابق صدر پرویزمشرف نے کہا کہ موجودہ صورت حال انتہائی تناؤ والی ہے اور افغانستان اس وقت مذہبی انتہا پسندی کا مرکزہے جس کا آغاز 1979 سے ہوا جب جہاد کے نام پرروس کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا جس کے دوران تمام مسلم ممالک سے 25 ہزار سے زائد مسلمان افغانستان آئے اور جہاد میں حصہ لیا۔انہوں نے کہا کہ روس کے انخلا کے بعد امریکا نے بنا کچھ سوچے سمجھے افغانستان کوچھوڑنیکا فیصلہ کیا جس کے باعث ہرنسلی گروپ ایک دوسرے سے برسرپیکارہوگیا اور دس سال افغانستان میں مذہبی انتہاپسندی کو پروان چڑھایا گیا کابل میں ایک وقت میں کوئی چھت سلامت نہیں تھی۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کی یہ صورت حال القاعدہ جیسی تنظیم کے لیے اپنے قدم جمانے کے لیے مثالی تھی اورہوا بھی ایسا، پھرنائن الیون جیسا واقعہ ہوا جس کے بعد طالبان پرحملہ کیا گیا اس وقت صورت حال دو اور ڈائی کی تھی لیکن ایک فوجی آدمی ہونے کے باوجود میرے لیے جنگ مسئلے کا حل نہیں۔پرویز مشرف نے کہا کہ تمام طالبان پختون ہیں لیکن تمام پختون طالبان نہیں اس لیے پختونوں کو نشانہ بنانا مناسب نہیں اس سے مختلف قومیتوں کے درمیان خلا بڑھے گا اسی طرح اگرامریکا افغانستان چھوڑتا ہے تو طالبان دوبارہ افغانستان میں غلبہ حاصل کرلیں گے۔
پرویزمشرف نے کہاکہ پاکستان کواس کے قیام سے ہی مسائل کا سامنا رہا ہے ان مسائل میں نسلی اور مذہبی اختلاف کی گونج نمایاں تھی جب کہ کمزورحکومتوں میں مرکزگریز قوتوں نے اپنا کام شروع کردیا ہے، پاکستان کی سول سوسائٹی کوچار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے چار بڑے طبقے میں ایک ماڈریٹ ہیں جو کم ہیں لیکن تعلیم یافتہ اورسوچ سمجھ رکھتے ہیں،
دوسرے قدامت پسند ہیں جوزیادہ تر دیہات میں رہتے ہیں اور مزارات پربھی جاتے ہیں لیکن یہ شدت پسند نہیں ہیں اسی طرح بنیادپرست بھی اقلیت میں ہیں لیکن بڑھ رہے ہیں اور چوتھا گروپ شدت پسند ہیں جوریاستی عمل داری کو چیلنج کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ آبادی قدامت پرستوں کی ہے جو کہ کم تعلیم یافتہ ہے لیکن شدت پسند نہیں اس لیے ہمیں قدامت پسندوں کو تعلیم یافتہ کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اگرانہیں تعلیم یافتہ نہیں بنایا گیا تو یہ شدت پسند بن سکتے ہیں۔