کابل (آئی این پی)سابق افغان صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ انہوں نے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے دورہ اسلام آباد کی دعوت قبول کر لی ہے اور وہ ماہ رمضان کے بعد اسلام آباد کا دورہ کریں گے۔ پیر کوکابل میں پاکستانی صحافیوں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے حامد کرزئی نے کہا کہ انھوں نے دعوت منظور کرتے ہوئے وزیر اعظم کو ایک جوابی خط بھی لکھا ہے جسے انہوں نے ‘نجی’ قرار دیتے ہوئے صحافیوں کو دینے سے انکار کیا۔
حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ انھیں گزشتہ چند برسوں میں پاکستان دورے کی چار دعوتیں موصول ہو چکی تھیں لیکن اب انھوں نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس وقت جانے کا فیصلہ کیوں کیا۔ایک سوال کے جواب میں کہ ماضی میں تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بیس دوروں سے کوئی فائدہ نہیں ہوا تو اس مرتبہ ایک بار پھر وہ کیوں جانا چاہ رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ امید کی وجہ سے۔ اگر مجھے اس امید کے نتیجے میں سو سال بھی پاکستان جانا پڑے تو میں جاتا رہوں گا۔ اسے تمام زندگی نہیں چھوڑوں گا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کو ایک مکمل ساتھی کے طور پر ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔’یہ میری خوش قسمتی ہوگی اگر میں دونوں ممالک کے درمیان ‘پیس میکر’ کا کردار ادا کرسکوں۔ میرے لیے اس سے بڑی بات کوئی اور نہیں ہوگی۔ لیکن تالی بجانے کے لیے یاد رہے کہ دو ہاتھ چاہیے ہوتے ہیں۔دوسری جانب افغان چیف ایگزیکیٹو عبداللہ عبداللہ نے پاکستانی صحافیو ں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کا دورہ ‘حالات بہتر ہونے کے بعد کریں گے۔ حکومت پاکستانی طالبان کو دہشت گرد اور دشمن قرار دے چکی ہے۔’ہمارے سپاہیوں نے ان کے خلاف لڑتے ہوئے قربانیاں دی ہیں۔ہم ٹی ٹی پی، القاعدہ یا داعش میں کوئی فرق نہیں کرتے ہیں۔ ہم یا امریکیوں نے ان کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ ان کی حکومت پاکستان کو اپنا دشمن نہیں سمجھتی ہے
لیکن پاکستان کو طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی بجائے ان کے خلاف ویسی ہی کارروائی کرنی چاہیے جیسی کہ وہ کر رہے ہیں۔عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ ایرانی وزیر خارجہ بھی گزشتہ روز کابل میں تھے اور انہوں نے بھی طالبان کے ساتھ روابط تسلیم کیے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ رابطے افغان حکومت اور عوام کے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔عبداللہ عبداللہ نے تسلیم کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اس وقت کافی بری سطح پر ہیں۔