اوٹاوا(آئی این پی )کینیڈا کے ہاس آف کامنز کے قانون سازوں نے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی حکومت کی حمایت کے بعد مستقبل میں اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے لیے تحریک منظور کرلی۔تفاق رائے سے منظور ہونے والی اس تحریک میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ‘عوام میں بڑھتی ہوئی نفرت اور خوف کی فضا کو تحلیل کرنے کی ضرورت کو سمجھیں’ اور ‘اسلاموفوبیا سمیت ہر قسم کی نسل پرستی اور مذہبی امتیاز کی مذمت کریں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ا رواں سال جنوری میں کیوبک مسجد میں ہونے والے حملے میں 6 مسلمان افراد ہلاک ہوگئے تھے، جس کے بعد سے جسٹن ٹروڈو کی حکومت پر ہر طرح کے مذہبی امتیاز کی مذمت کرنے کا دبا برقرار ہے۔جسٹن ٹروڈو کی لبرل پارٹی سے تعلق رکھنے والے تقریبا سارے ہی نائب وزرا اور بائیں بازو کی نئی جمہوری پارٹی ان اقدامات کی منظوری دے چکی ہے تاہم کنزرویٹو پارٹی کے قانون سازوں نے اس کے خلاف ووٹ دیئے۔اس تحریک کے تحت ایک پارلیمانی کمیٹی اس حوالے سے تحقیقات کا آغاز کرے گی کہ حکومت معاملے سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کرسکتی ہے، مذکورہ کمیٹی اپنی تجاویز نومبر کے وسط میں پیش کرے گی۔تحریک کے مطابق پارلیمانی کمیٹی اس حوالے سے بھی غور کرے گی کہ نسل پرستی، مذہبی تفریق اور اسلاموفوبیا کو کیسے محدود اور ختم کیا جاسکتا ہے۔یہ تحریک اقرا خالد کی جانب سے پیش کی گئی تھی جو ٹورنٹو کے علاقے میسی سوگا کی ڈپٹی ہیں۔میسی سوگا میں 7 لاکھ افراد بستے ہیں، جن میں سے اکثریت مہاجرین کی ہے۔مذکورہ تحریک عوامی رائے میں تقسیم کی وجہ بنی ہے، اینگس ریڈ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے شائع ہونے والے ایک پول کے مطابق 42 فیصد افراد نے اقدام کی مخالفت میں جبکہ 29 فیصد نے اس کے حق میں ووٹنگ کی۔جبکہ دیگر افراد نے کسی بھی رائے کے اظہار سے گریز کیا۔