لندن(آئی این پی)دنیا بھر میں ہنگامہ مچانے والے پاناما اسکینڈل کا معاملہ اب ٹھنڈا پڑگیا ، برطانوی وزارت خزانہ کا تفتیش کاروں کے ساتھ تعاون سے انکار پر پانامالیکس کے معاملے کی ساکھ ختم ہونے لگی، پاناما پیپرز کی دستاویزات کے حوالے سے اناسی ممالک میں شروع ہونے والی تحقیقات پر سوالیہ نشان لگ گیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق پاناما پیپرز کی دستاویزات کے حوالے سے اناسی ممالک میں
شروع ہونے والی انکوائریاں کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کرسکیں۔ آف شور کمپنیوں کے انکشاف کے بعد عوامی احتجاج کی لہر شروع ہوئی توآئس لینڈ کے وزیراعظم کو عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ ان کے بعد آنے والے دوسرے وزیراعظم کا نام بھی پاناما لیکس میں آیا۔غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق پاناما لیکس کا سب سے زیادہ اور فوری اثر آئس لینڈ میں دیکھا گیا۔ان دستاویزات کا انکشاف کرنے والے جرمن اخبار کے صحافی نے اعتراف کیا کہ پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کے کسی ملک کی عدالت میں پاناما دستاویزات سے متعلق سنجیدہ سوالات نہیں اٹھائے گئے۔ادھر پاناما میں پولیس نے موزاک فونسیکا کے ہیڈکوارٹر پرچھاپہ مار کر کمپنی مالکان جرگن موساک اور ریمون فونیسکا کو گرفت میں لیا۔ ان کی یہ گرفتاری برازیل کے سب سے بڑے رشوت اسکینڈل کی تحقیقا ت کے سلسلے میں ہوئی جوپاناما پیپرز کے انکشافات کے دس ماہ بعد سامنے آئی۔ برطانوی وزارت خزانہ کے حکام نے یورپی یونین کی پاناما پیپرز انکوائری کے تفتیش کاروں کے ساتھ تعاون سے انکار کرتے ہوئے ملاقات نہیں کی، جبکہ مالٹا کے حکام اور وزرا نے بھی پاناما پیپرز کے حوالے سے تحقیق کرنے والی یورپی یونین کمیٹی سے ملنے سے انکار کردیا۔برطانیہ کے سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے بارے میں بھی کہا گیا کہ انہوں نے اپنے والد کی قائم کردہ آف شورکمپنی سے منافع حاصل کیا۔پاناما لیکس تاریخ
کی سب سے بڑی لیکس ہے جس کی زد میں آکر ہزاروں ٹیکس دہندگان اور کمپنیاں زیرتفتیش رہیں۔ دنیا بھر میں اس کا وا ویلہ ہونے کے باوجود تحقیقات کی بنیاد پر کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی اور نہ ہی ان دستاویزات کو سنجیدہ لیا گیا۔