منگل‬‮ ، 19 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

لیڈی ڈیاناسے دوستی ،برسوں بعد ڈاکٹرحسنات نے خاموشی توڑدی

datetime 15  فروری‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)برطانوی شاہی خاندان کی بہولیڈی ڈیانا کی موت کے بعد ایک پاکستانی ڈاکٹر حسنات کا اخبارات میں بہت چرچے رہے ہیں کہ لیڈی ڈیانا ان کے عشق میں مبتلا تھی اور اسی میں ماری گئی مگر ڈاکٹر حسنات اس سے شادی پر تیار نہ ہوئے ۔ڈاکٹر حسنات نے اس بارے میں ہمیشہ خاموشی اختیار کی مگر کئی برس گزر جانے کے بعد انہوں نے بتایا ہے کہ شہزادی ڈیانا سے میری پہلی ملاقات 1995 میں ہوئی تھی۔ میں اس

وقت رائیل برمٹن اسپتال میں پی ایچ ڈی کررہا تھا اور میرا مضمون دل کے امراض تھے۔ یعنی میں دل کا ڈاکٹر تھا۔اس وقت میری عمر 36 سال تھی۔ یہاں ڈیانا اکثر آتی تھی اور یہاں سے ہماری ملاقاتیں شروع ہوئیں جو بعد میں تعلق داری میں بدل گئیں۔ایک ملاقات میں، میں نے ڈیانا کو اپنے گھر مدعو کیا، یہ ایک رسمی سی دعوت تھی مگر ڈیانا نے اسے فوری طور پر قبول کرلیا۔میرا گھر ایسٹ لندن میں سٹریٹ فورڈ میں تھا۔ بس اس ملاقات کے بعد ہماری دوستی گہری ہوگئی اور پھر ہم کھانا کھانے باہر ایک ساتھ جانےلگے اور اس سے ہماری دوستی محبت میں بدل گئی۔ یہ ایک نارمل برطانوی محبت تھی جیسا کہ عام برطانوی بھی کرتے ہیں۔ ڈیانا نے مجھے کوڈ نام آرمانی دے رکھا تھا اور خفیہ رابطوں کے لئے یہی نام استعمال ہوتا تھا۔ظاہر ہے کہ وہ شاہی خاندان کی بہو تھی اور یہ سب کچھ خفیہ ہی رکھنا تھا۔2006 میں نے پاکستان میں ہی ایک اور شادی کی تھی مگر وہ بھی ناکام رہی اور ختم ہوچکی ہے ۔ یہ مکمل طور پر ارینج شادی تھی اور رشتہ داروں میں ہی ہوئی تھی۔ میں نے اپنا زیادہ تر وقت ملائشیا میں کام کرتے ہوئے گزارا ہے اور میری کوشش یہ ہے کہ میں لاہور میں بچوں کا دل کا ایک اسپتال بناوں۔میرا اور لیڈی ڈیانا کا تعلق دو سال تک رہا آپ اسے رومانس کہہ سکتے ہیں۔ اس دوران مجھے یہ پتہ چلا کہ ڈیانا کی شدید خواہش تھی کہ اس کی ایک بیٹی ہوتی، اس کے دو بیٹے تھے مگر وہ بار بار کہتی تھی کہ اسےایک بیٹی کو ضرورت یا خواہش ہے۔شاید وہ مجھے یہ بتانا چاہ رہی تھی کہ شادی کے بعد ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ ہمیں ایک بیٹی عطا کردے ۔

لوگ بار بار ایک سوال پوچھتے ہیں کہ آخر میں نے لیڈی ڈیاناکی محبت کو دھتکارا کیوں؟ اس پر مجھے خاصہ لعن طعن کیا گیا مگر میں آج یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہماری جدائی میری طرف سے نہیں ہوئی تھی بلکہ یہ ڈیانا ہی تھی جس نے بے وفائی کی اور ایک اور مرد سے بھی ملنا شروع کردیا حالانکہ عین اسی دوران وہ مجھ سے بھی شادی کی بات کررہی تھی ۔یہ سب کچھ میرے لئے بہت دکھ لئے ہوئے تھا اور میں نے ڈیانا سےکہا تھا کہ ڈیانا یہ سب کچھ تمھیں برباد کر کے رکھ دے گا اور ایسا ہی ہوا ۔ جس شخص سے ڈیانا نے ملنا شروع کیا تھا وہ دودی الفائد ہی تھا جس کے ساتھ گاڑی میں ڈیانا ہلاک ہوگئی۔اس دوران ہمارے درمیان شادی کے لئے کئی بار مباحثے ہوئے ۔ ڈیانا نے کئی بار شادی کی بات کی مگر میں اسے یہ سمجھاتا رہا کہ اس سے میری زندگی پر بہت گہرا اثر پڑے گا کیونکہ بہر حال وہ ایک شہزادی اور دنیا میں سب سے مقبول خاتون بھی ۔ہم ایک نارمل زندگی صرف پاکستان میں ہی گزار سکتے تھے اور میں نے اسے یہ بات بتائی تھی مگر ہمارے درمیان کسی ایک بات پر اتفاق نہ ہوسکا تھا۔ یعنی اس بات پر تو اتفاق تھا کہ ہماری شادی ہونی چاہئے مگر کہاں، کب اور کیسے پر اتفاق نہ ہو سکا تھا۔ اس دوران ڈیانا کے ذاتی خادم بٹلر نے ایک پیر صاحب سے ملاقات بھی کی تاکہ وہ دعا کریں اور کسی طرح ہماری شادی ہوجائے ۔یہ آئیڈیا ڈیانا کا تھا میرا نہیں۔

مجھے اس بارے میں کچھ علم نہ تھا پھر اچانک ڈیانا نے بتایا کہ وہ جادوگروں اور پیروں کی خدمات حاصل کر رہی ہے تاکہ کسی طرح ہماری شادی ہوجائے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ڈیانا بس آنکھیں بند کر کے میرے ساتھ شادی کرنے پر زور دے رہی تھی اور اس کےبعد کیا ہوگا ؟ اس بارے میں وہ سوچنے پر تیار نہ تھی۔ بس اسی بات پر ہماری بحث ہوتی تھی کہ ہم آنکھیں بند کر کے شادی نہیں کرسکتے تھے۔ہاں ایک بات اور، ہمارے درمیان کبھی یہ نہیں طے ہوا تھا کہ ڈیانا مجھ سے شادی کے لئے اسلام قبول کرلے گی ۔ ڈیانا سے دوستی اور تعلق کے دوران مجھے بہت دھمکیاں ملتی رہتی تھیں، اس دوران ڈیانا کی والدہ نے بھی اس سے بات چیت بند کردی تھی کیونکہ وہ اس کی میرے ساتھ دوستی اور تعلق پر بہت ناراض تھی۔ اس وقت تک سب کچھ نارمل ہی چل رہاتھا مگر مجھے اچانک لگا کہ ڈیانا نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔وہ ایک دن چھٹی گزارنے الفائد کے پاس گئی اور جہاں اس کے بیٹے ڈوڈی سے ملی اور یقیناً مجھے برا لگا اوراس کے بعد میرے تعلقات کم ہونے لگے۔میں نے ڈیانا کو کہا کہ وہ الفائد کے بیٹے ڈوڈی سے کیوں مل رہی ہے؟ اس بات پر ہمارے درمیان تلخی پیدا ہوئی مگر ڈیانا کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں اور وہ ایک نارمل سی ملاقات تھی۔ جب کہ میرا خیال تھا کہ کوئی ہے جو ہمارے درمیان تعلق ختم کرانے کے لئے اس قسم کی سازشیں کررہا ہے اور اسی نے یہ ملاقات طے کرائی تھی مگر ڈیانا اسے ماننے پر تیار نہ ہوئی ۔

میں نے بہرحال ڈیانا کو بتا دیا تھا کہ وہ اپنی تباہی کے راستے پر چل رہی ہے۔اس تلخی کے بعد ہمارے درمیان دراڑ پیدا ہوگئی اور ڈیانا ڈوڈی کے پاس چلی گئی۔ جس رات وہ ہلاک ہوئی، اسی رات میں اسے کافی دیر تک فون کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر اس سے بات نہ ہو سکی اور پھر اس کی موت کی اطلاع آگئی۔ ڈیانا کو اپنی حفاظت سے متعلق خطرات تو تھے مگرایسا ہوگا کبھی سوچا تک نہ تھا۔ہم ایک نارمل زندگی صرف پاکستان میں ہی گزار سکتے تھے اور میں نے اسے یہ بات بتائی تھی مگر ہمارے درمیان کسی ایک بات پر اتفاق نہ ہوسکا تھا۔ یعنی اس بات پر تو اتفاق تھا کہ ہماری شادی ہونی چاہئے مگر کہاں، کب اور کیسے پر اتفاق نہ ہو سکا تھا۔ اس دوران ڈیانا کے ذاتی خادم بٹلر نے ایک پیر صاحب سے ملاقات بھی کی تاکہ وہ دعا کریں اور کسی طرح ہماری شادی ہوجائے ۔یہ آئیڈیا ڈیانا کا تھا میرا نہیں۔ مجھے اس بارے میں کچھ علم نہ تھا پھر اچانک ڈیانا نے بتایا کہ وہ جادوگروں اور پیروں کی خدمات حاصل کر رہی ہے تاکہ کسی طرح ہماری شادی ہوجائے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ڈیانا بس آنکھیں بند کر کے میرے ساتھ شادی کرنے پر زور دے رہی تھی اور اس کےبعد کیا ہوگا ؟ اس بارے میں وہ سوچنے پر تیار نہ تھی۔ بس اسی بات پر ہماری بحث ہوتی تھی کہ ہم آنکھیں بند کر کے شادی نہیں کرسکتے تھے۔ہاں ایک بات اور، ہمارے درمیان کبھی یہ نہیں طے ہوا تھا کہ ڈیانا مجھ سے شادی کے لئے اسلام قبول کرلے گی ۔ ڈیانا سے دوستی اور تعلق کے دوران مجھے بہت دھمکیاں ملتی رہتی تھیں، اس دوران ڈیانا کی والدہ نے بھی اس سے بات چیت بند کردی تھی کیونکہ وہ اس کی میرے ساتھ دوستی اور تعلق پر بہت ناراض تھی۔ اس وقت تک سب کچھ نارمل ہی چل رہاتھا

مگر مجھے اچانک لگا کہ ڈیانا نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔وہ ایک دن چھٹی گزارنے الفائد کے پاس گئی اور جہاں اس کے بیٹے ڈوڈی سے ملی اور یقیناً مجھے برا لگا ۔میں نے ڈیانا کو کہا کہ وہ الفائد کے بیٹے ڈوڈی سے کیوں مل رہی ہے؟ اس بات پر ہمارے درمیان تلخی پیدا ہوئی مگر ڈیانا کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں اور وہ ایک نارمل سی ملاقات تھی۔ جب کہ میرا خیال تھا کہ کوئی ہے جو ہمارے درمیان تعلق ختم کرانے کے لئے اس قسم کی سازشیں کررہا ہے اور اسی نے یہ ملاقات طے کرائی تھی مگر ڈیانا اسے ماننے پر تیار نہ ہوئی ۔ میں نے بہرحال ڈیانا کو بتا دیا تھا کہ وہ اپنی تباہی کے راستے پر چل رہی ہے۔اس تلخی کے بعد ہمارے درمیان دراڑ پیدا ہوگئی اور ڈیانا ڈوڈی کے پاس چلی گئی۔ جس رات وہ ہلاک ہوئی، اسی رات میں اسے کافی دیر تک فون کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر اس سے بات نہ ہو سکی اور پھر اس کی موت کی اطلاع آگئی۔ ڈیانا کو اپنی حفاظت سے متعلق خطرات تو تھے مگرایسا ہوگا کبھی سوچا تک نہ تھا۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟


سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…