مقبوضہ بیت المقدس (این این آئی)عالمی سطح پر شدید مخالفت اور مذمت کے باوجود اسرائیلی حکومت نے حالیہ ہفتوں کے دوران فلسطینی شہروں بالخصوص مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی آباد کاری کے نئے منصوبوں کے اعلانات شروع کردیئے۔عرب ٹی وی کے مطابق حال ہی میں صہیونی حکومت نے مقبوضہ بیت المقدس اور غرب اردن کے جنوبی شہر بیت لحم کے درمیان واقع’گیلو‘‘ یہودی کالونی میں مزید 770 مکانات کی تعمیر پر غور شروع کیا ، یہ کالونی فلسطین میں قائم کردہ دائرے کی شکل کی پانچ یہودی بستیوں میں سے ایک ہے جس میں چار ہزار سے زائد مکانات ہیں۔ گیلو کالونی کے قیام اور اس میں مزید توسیع سے صہیونی ریاست القدس کو غرب اردن کے جنوبی علاقوں سے الگ تھلگ کرنے کی سازش کررہی ہے۔
اگر القدس کے گرد مزید 770 مکانات تعمیر ہوجاتے ہیں تو اس سے القدس کا وہ خوبصورت منظر یکسرتبدیل ہوجائے گا جو جنوب مغرب میں دیر کریمیزان کے آس پاس آج موجود ہے۔یہودی انسانی حقوق گروپ ’عیر عامیم‘ سے وابستہ تجزیہ نگار افیف تاتراسکی کا کہنا تھا کہ کئی سال کے توقف کے بعد پہلی بار حکومت نے القدس کو غرب اردن سے الگ کرنے کے اس غیرمعمولی منصوبے کی منظوری دینے پر غور کیا ، یہ تعمیرات ایک ایسے وقت میں کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے جب امریکا میں ری پبلیکن پارٹی کے حمایت یافتہ ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوچکے ہیں۔
بیشتر صہیونیوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد فلسطین میں یہودی آباد کاری کا ایک نیا موقع ہاتھ آیا ہے۔صہیونی حکومت کی طرف سیصرف گیلو کالونی ہی میں توسیع کی منظوری نہیں دی جا رہی ہے بلکہ بیت لحم کے قریب بیت صفافا کے قریب اور بیت المقدس میں جبل مکبر کے قریب یہودی عبادت گاہیں بھی بنائی جا رہی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ مذہبی یہودیوں کو ان مقامات کی طرف آنے کی ترغیبات دی جاسکیں۔
مبصرین کا کہناتھا کہ اسرائیل نے یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کے حالیہ اقدمات سے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ تل ابیب فلسطین، اسرائیل تنازع کے منصفانہ حل میں سنجیدہ نہیں بلکہ وہ یہودی کالونیوں کے ذریعے ارض فلسطین کا نقشہ اس طرح بنا رہا ہے تاکہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو ناممکن بنایا جاسکے۔
یہودی لابی کا ابتک کا سب سے بڑا پلان بے نقاب، فلسطینیوں کیساتھ کیا کرنے جارہے ہیں؟
7
دسمبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں