برلن(مانیٹرنگ ڈیسک )جرمن ریڈیونے کہاہے کہ افغان تعمیر نو کے عمل میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہندوکش کی اس ریاست میں پائی جانے والی بدعنوانی ہے۔ افغانستان دنیا کا تیسرا بدعنوان ترین ملک ہے اور وہاں ہر جگہ نظر آنے والی کرپشن کے خاتمے کی ضرورت ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق برسلز کانفرنس میں جو 70 ممالک شریک ہوئے، وہ اب تک افغانستان کو مجموعی طور پر 113 بلین ڈالر مہیا کر چکے ہیں۔ ان رقوم کا زیادہ تر حصہ افغان سکیورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں کی تربیت اور ان کی تنخواہوں پر خرچ کیا گیا ہے۔بین الاقوامی امدادی تنظیموں کی رائے میں افغانستان کی تعمیر و ترقی کے عمل میں معمولی پیش رفت تو ہوئی ہے لیکن اس ملک میں سلامتی کی صورت حال پہلے کی طرح اب تک انتہائی مخدوش ہے۔خود صدر اشرف غنی نے بھی اعتراف کیا کہ کابل حکومت کو ملک میں جرائم، بدعنوانی اور غربت کے خلاف لازمی طور پر کامیاب جنگ لڑنا ہو گی، ورنہ افغانستان کو یہ حق ہی نہیں پہنچتا کہ عالمی برادری اس کی مدد کرے۔برینڈ ریگرٹ کے مطابق افغانستان کی تعمیر و ترقی کے عمل میں یہ بات بھی فیصلہ کن اہمیت کی حامل ہے کہ وہاں جرائم اور کرپشن پر قابو پایا جائے، بیرون ملک مقیم کئی ملین افغان مہاجرین کو اپنے وطن واپسی کا موقع ملے اور امدادی رقوم کو بہت شفاف انداز میں ایسے استعمال کیا جائے کہ ان کے ملکی سکیورٹی فورسز پر اخراجات کے علاوہ دیگر شعبوں میں استعمال کے بھی واضح نتائج دیکھے جا سکیں۔
دوسری جانب ایک ایسا ملک جہاں اطلاعات کے مطابق ازبکستان کے شہر میں سکول کے اساتذہ کو تنخواہوں میں نقدی کی جگہ چوزے دیے جا رہے ہیں۔امریکہ کے حمایت یافتہ ریڈیو اوزولک کے مطابق نوکس میں حکام خود مختار قراقل رپبلک کے بینکوں میں پیسوں کی کمی کی وجہ سے اساتذہ کو تنخواہوں میں چوزے دے رہے ہیں۔ازبکستان کے ایک استاد نے اس فیصلے کو شرمناک قرار دیا ہے۔ انھوں نے ریڈیو اوزولک کو بتایا ’گذشتہ سال ہمیں تنخواہوں کی جگہ آلو، گاجر اور کدو دیے گئے اور اس بار ہمیں چوزے لینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ہمیں چوزوں کی ضرورت ہو گی تو ہم مارکیٹ سے سستے داموں میں خرید سکتے ہیں۔‘ایک دوسرے ذرائع کا کہنا ہے اساتذہ کو دیے جانے والے چوزوں کی قیمت ڈھائی ڈالر ہے جو مقامی مارکیٹ میں ریٹ سے دو گنا زیادہ قیمت ہے۔ازبکستان کی میڈیا پر حکومت کا سخت کنٹرول ہے اور مقامی افراد غیر ملکی میڈیا سے صرف نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ہی بات کرتے ہیں۔واضح رہے کہ ازبکستان کو کئی سالوں سے نقدی کی قلت کا سامنا ہے اور اسی وجہ سے تنخواہوں اور پینشن کی ادائیگی میں شدید تاخیر ہوتی ہے۔رواں ماہ کے شروع میں سرکاری ملازمین نے شکایت کی تھی کہ بینکوں میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے انھیں دو مہینوں سے تنخواہیں نہیں ملیں۔ایک شخص کے خیال میں یہ صورتِ حال ’شرمناک اور بدعنوان حکام‘ کی وجہ سے ہے جبکہ ایک دوسرے شخص کے مطابق ملک کے دیگر حصوں میں یہ صورتِ حال مختلف ہے۔ایک اور شخص نے مذاق کرتے ہوئے کہا ’اس میں کیا غلط ہے؟ آپ کے پاس ناشتے کے لیے چوزے کا سوپ، دوپہر کے کھانے کے لیے فرائیڈ چکن اور رات کے کھانے کے لیے مرغی ہے۔
اہم اسلامی ملک دنیا کا تیسرا بدعنوان ترین ملک قرار
7
اکتوبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں