اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے مقرب سمجھے جانے والے ایک مذہبی پریشر گروپ کے سربراہ اور سعودی سفارت خانے پر حملوں کے منصوبہ ساز قرار دیے جانے والے حسن میھن نے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے پاسداران انقلاب، پاسیج فورس اور نجی ملیشیا ’فرزندان حزب اللہ انقلابیین‘ کے کارکنوں کو سعودی عرب کے سفارت خانے پر دھاوا بولنے پر اکسایا تھا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق سعودی سفارت خانے پرحملے کے مرکزی ملزم کرد میھن نے صدر حسن روحانی کے نام اخبارات میں ایک کھلا خط شائع کرایا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ سعودی سفارت خانے پرحملے کے معاملے پر تہران حکومت ٹال مٹول کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ حکومت چاہتی تو سفارت خانے پر یلغار روکی جاسکتی تھی۔ یلغار کرنے والے بلوائیوں کو بھی یقین تھا کہ پولیس اور دیگر سیکیورٹی ادارے انہیں سفارت خانے پرحملے کے کوشش کے دوران سختی سے روکیں گے اور نہ رکنے پر تشدد کا نشانہ بنائیں گے۔
مگر اس موقع پر سیکیورٹی حکام کی طرف سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی۔میھن نے تسلیم کیا کہ اس نے اپنے گروپ کے ارکان کو ٹلیگرام کے ذریعے سعودی عرب کے سفارتخانے پر دھاوا بولنے کی ترغیب دی تھی۔دوسری جانب ایرانی حکومت نے سعودی عرب کے سفارت خانے پرحملے کے ماسٹر مائنڈ کے الزامات کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ تہران وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی کا کہنا تھا کہ حسین کرد میھن کی جانب سے حکومت پر ٹال مٹول اور دوغلی پالیسی اپنانے کا الزام قطعا بے بنیاد ہے۔ترجمان نے مزید کہا کہ ’باوجود اس کہ سعودی عرب کا سفارت خانہ ایک دشمن ملک کا سفارت خانہ تھا مگر کسی گروپ کو کسی بھی دوسرے ملک کے سفارت خانے پر یلغار کا حق نہیں دیا جاسکتا ہے۔ ایسا کرنا ایران کے قوانین کی صریح خلاف ورزی ، قابل مذمت اور ناقابل قبول امر ہے۔
سعودی سفارتخانے پر حملے کا حکم ایران سے کس نے دیا تھا؟ مرکزی ملزم نے تہلکہ خیز انکشافات کر دیئے
4
اگست 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں