کابل(نیوز ڈیسک)افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ افغانستان کے عام شہریوں کو نشانہ بنانے والوں کے ساتھ ان کی حکومت امن مذاکرات نہیں کرے گی۔انھوں نے یہ بیان درالحکومت کابل اور صوبہ کنڑ کے صوبائی درالحکومت اسد آباد میں ہونے والے دو خود کش بم دھماکوں میں کم از کم 26 افراد ہلات کے بعد دیا۔ان حملوں میں 50 سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے۔ مرنے اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تعداد عام شہریوں کی تھی۔اس سے قبل ہونے والے ایک حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تھی۔گذشتہ ہفتے کے شروع میں پاکستان اور افغاستان کے حکام نے کہا تھا کہ کابل حکام اور طالبان عسکریت پسندوں کے درمیان مارچ کے آغاز میں براہِ راست مذاکرات شروع ہوں گے۔لیکن کابل اور کنڑ میں ہونے والے ان تازہ حملوں کے بعد افغان صدر نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے مذاکرات سے انکار کر دیا ہے۔سنیچر کو کابل میں خود کش بم حملہ وزارت دفاع کی عمارت کے سامنے ہوا جس میں حکام کیمطابق 12 افراد ہلاک اور آٹھ زخمی ہوگئے ہیں۔کابل میں ہونے والے خود کش دھماکے سے کچھ گھنٹے پہلے صوبہ کنڑ کے صوبائی دارالحکومت اسد آباد میں گورنر ہاؤس کے قریب ہونے والے خود کش بم حملے میں افغان ملیشیا کمانڈر سمیت کم از کم 14 افراد ہلاک اور 40 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔خود کش حملہ سنیچر کے روز پاکستان کی سرحد کے قریب افغانستان کے مشرقی صوبے کنڑ میں ہوا ہے۔صوبائی گورنر وحید اللہ کلیم زئی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ بمبار ایک موئٹرسائیکل پر سوار تھا اور اسد آباد میں ایک سرکاری دفتر کے سامنے جاکر اس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔انھوں نے بتایا کہ مرنے والے زیادہ افراد عام شہری اور بچے ہیں جو یا تو ادھر سے گزر رہے تھے یا پھر پارک میں کھیل رہے تھے۔حملے کی فوری وجہ نہیں معلوم ہو سکی ہے اور نہ ہی کسی نے ذمے داری لی ہے۔ تاہم اس حملے میں ایک قبائلی سردار اور ملیشیا کمانڈر حاجی خان جان کی موت ہو گئی ہے۔خیال رہے کہ وہ گذشتہ سال سے طالبان کے خلاف کئی کارروائیوں میں شامل رہے تھے۔دریں اثنا کنڑ میں دولت اسلامیہ کی سرگرمیاں بھی نظر آئی ہیں تاہم ہمارے نامہ نگار کے مطابق انھیں کئی جانب سے مزاحمت اور مخالفت کا سامنا ہے۔