بدھ‬‮ ، 31 دسمبر‬‮ 2025 

انسانی اسمگلنگ،150 نیپالی بچے بھارت میں بازیاب کرالئے گئے

datetime 16  فروری‬‮  2016 |

نئی دہلی(نیوز ڈیسک)بھارت کے قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے 160 کے قریب بچے انسانی اسمگلروں سے بازیاب کروا لیے۔ کی تھی۔ ایک سینئربھارتی حکومتی اہلکار کے مطابق گزشتہ برس اپریل کے بعد نیپال سے بچے بھارت لا کر فروخت کرنے کے گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہونے کے شبے میں پچاس سے زائد افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے اور اْن کے حوالے سے مکمل تفتیشی عمل جاری ہے۔ انسانی اسمگلروں کے قبضے سے بازیاب کروائے گئے 160 بچے واپس نیپالی حکام کے توسط سے اْن کے خاندانوں تک پہنچائے جا چکے ہیں۔بھارتی ریاست اتر پردیش کے سیکرٹری داخلہ کمل سکسینا نے بتایا کہ جس دن نیپال میں زلزلہ آیا تو انہوں نے ریاست کے تمام ضلعی مجسٹریٹوں کو ایک خط تحریر کیا تھا کہ وہ چوکنا ہو جائیں کیونکہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ اب نیپال سے ممکنہ طور پر زلزلے سے متاثرہ خاندانوں کے بچوں کی اسمگلنگ شروع کر سکتے ہیں۔سکیسینا نے نیپالی سرحد کے ساتھ منسلک سات اضلاع کے پولیس سربراہان کو ہوشیار رہنے کی تلقین کی تھی۔ اتر پردیش کے سیکرٹری داخلہ نے بعد میں تمام متعلقہ محکموں کے انچارج افسران کے ساتھ ایک ویڈیو کانفرنس میں بھی ممکنہ صورت حال کے حوالے سے اپنے خدشات بیان کیے تھے۔ اتر پردیش کے سیکرٹری داخلہ کے مطابق سکیورٹی سخت کرنے کے بعد ایک جوڑے سے پندرہ بچے برآمد ضرور ہوئے لیکن بچوں نے جوڑے کو اپنا ماں باپ قرار دے دیا تھا۔ بعد میں اسی جوڑے نے فی بچہ پندرہ سو بھارتی روپوں یا بائیس امریکی ڈالر کے عوض تمام بچے فروخت کر دیے تھے۔نیپال سے بھارت میں اوسطاً بارہ ہزار نیپالی بچوں کو سالانہ بنیادوں پر اسمگل کیا جاتا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں بچوں کی اسمگلنگ کا یہ جائزہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔ انسانی اسمگلنگ کے خلاف آواز بلند کرنے والے کارکنوں نے زلزلے کے بعد سے ہی کہنا شروع کر دیا تھا کہ اسمگلر متاثرہ خاندانوں سے مختلف حیلے بہانوں سے بچوں کو حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر سکتے ہیں۔ان بچوں کو حاصل کرنے کے لیے اسمگلر متاثرہ خاندانوں کو بھارت میں ملازمت اور پْرکشش ماہانہ تنخواہوں کا لالچ دیتے ہیں۔ حقیقت بالکل اِس کے الٹ ہے۔ لڑکیوں اور خواتین کو براہ راست جسم فروشی کے دھندے میں دھکیلا نہیں جاتا بلکہ وہ گھروں میں کام کرنے والی ملازماؤں کے طور پر بھارت اور دوسرے ملکوں کو بیچ دی جاتی ہیں اور لڑکے بیگار کیمپوں کے نگرانوں کی تحویل میں دے دیے جاتے ہیں۔سکسینا نے بتایا کہ نیپالی لڑکوں، لڑکیوں اور خواتین کی جبری فروخت کو روکنے کے لیے کم از کم چار ہزار پولیس افسران اور اہلکاروں کو تربیت دے کر انہیں اِس صورت حال بابت معلومات فراہم کرتے ہوئے ملزمان تک پہنچنے کے لیے طریقہ کار وضع کیا گیا۔ اِس طریقے میں اسمگلنگ کے لیے استعمال کیے جانے والے راستوں کی خاص طور پر کڑی نگرانی کو اہم قرار دیا گیا ہے۔#/s#

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کام یابی کے دو فارمولے


کمرہ صحافیوں سے بھرا ہوا تھا‘ دنیا جہاں کا میڈیا…

وزیراعظم بھینسیں بھی رکھ لیں

جمشید رتن ٹاٹا بھارت کے سب سے بڑے کاروباری گروپ…

جہانگیری کی جعلی ڈگری

میرے پاس چند دن قبل ایک نوجوان آیا‘ وہ الیکٹریکل…

تاحیات

قیدی کی حالت خراب تھی‘ کپڑے گندے‘ بدبودار اور…

جو نہیں آتا اس کی قدر

’’آپ فائز کو نہیں لے کر آئے‘ میں نے کہا تھا آپ…

ویل ڈن شہباز شریف

بارہ دسمبر جمعہ کے دن ترکمانستان کے دارالحکومت…

اسے بھی اٹھا لیں

یہ 18 اکتوبر2020ء کی بات ہے‘ مریم نواز اور کیپٹن…

جج کا بیٹا

اسلام آباد میں یکم دسمبر کی رات ایک انتہائی دل…

عمران خان اور گاماں پہلوان

گاماں پہلوان پنجاب کا ایک لیجنڈری کردار تھا‘…

نوٹیفکیشن میں تاخیر کی پانچ وجوہات

میں نریندر مودی کو پاکستان کا سب سے بڑا محسن سمجھتا…

چیف آف ڈیفنس فورسز

یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ…