ریاض(نیوز ڈیسک) سعودی عرب، ترکی کے ساتھ مل کر شام میں زمینی افواج اتارنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، جس کے بعد دنیا پر تیسری عالمی جنگ کا سایہ گھنا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ غیرملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق سعودی عرب روس کو بشارالاسد کی حمایت سے باز رکھنے اور شامی حکومت کی باغی طاقتوں کو زندہ رکھنے کی آخری کوشش کے طور پر زمینی فوج شام میں اتارنا چاہتا ہے۔ آئرلینڈ کے اخبار ’’آئرش ٹائمز‘‘ کی رپورٹ کے مطابق شام کے شمالی صوبے الیپو(Aleppo) میں شامی حکومت کے مخالف باغی خاصے طاقتور تھے لیکن روس کی مداخلت کی باعث ان کی کمرٹوٹ گئی ہے۔الیپو شہر شام کا کاروباری مرکز تھا، اس وقت یہ ایک شہر باقی رہ گیا ہے جس پر شامی حکومت کے مخالف باغیوں کا قبضہ ہے اور یہاں ان کی طاقت کسی حد تک باقی ہے، باقی تمام شہر ان کے قبضے سے چھڑوائے جا چکے ہیں۔یہ شہر ترکی کے بارڈر پر واقع ہے اور ان باغیوں کے لیے لائف لائن کی حیثیت رکھتا ہے۔گزشتہ ہفتے بشارالاسد کی فوج اور ایران کے حمایت یافتہ شیعہ جنگجو?ں نے اس سرحدی علاقے میں پیش قدمی کی تھی اور روس فوج کے جنگی طیاروں نے فضاء4 سے بمباری کرکے شامی فوج اور ان جنگجو?ں کا تحفظ کیا اور پیش قدمی میں مدد دی تھی۔ اس پیش قدمی کے نتیجے میں اس علاقے سے ہزاروں شامی باشندوں کو گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑی جس سے شام میں جاری انسانی بحران مزید شدید ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق مغربی اتحادی ممالک سعودی عرب کے زمینی فوج شام میں اتارنے کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ سعودی عرب کے روس اور بشارالاسد کے مخالفین کی حمایت میں زمینی فوج شام میں اتارنے سے خوفناک جنگ کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔فنانشل ٹائمز نے ذرائع کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا ہے کہ’’ اعلیٰ سعودی حکام ترک عہدیداروں کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے ہیں اور شام میں زمینی فوج بھیجنے کے آپشنز پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی طرف سے شام میں فوج اتارنے کے ارادے سامنے آ رہے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنی زمینی فوج داعش کے خلاف لڑنے کے لیے شام بھیج رہے ہیں اور یہ فوج امریکی اتحاد کے تحت لڑائی میں حصہ لے گی۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں امریکہ نے عرب ممالک کو داعش کے خلاف لڑنے کے لیے مزید فوج شام میں بھیجنے سے منع کر دیا تھا۔ امریکہ کی طرف سے اس ہدایت کے بعد مذکورہ تینوں عرب ممالک کی طرف سے شام میں زمینی فوج اتارنے کے اعلانات سامنے آنے لگے۔ جس پر مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ عرب ممالک امریکہ کی ہدایت کے بعد داعش کے خلاف لڑنے کے لیے فوج شام نہیں بھیج سکتے اس لیے غالب امکان ہے کہ یہ شامی حکومت کے مخالف باغیوں کی حمایت کے لیے فوجیں شام میں اتارنا چاہتے ہیں۔