پیر‬‮ ، 22 ستمبر‬‮ 2025 

ترکی سرحد پر موجود شامی متاثرین کو پناہ دے،یورپی یونین

datetime 7  فروری‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ُبرلن(نیوز ڈیسک)یورپی یونین کے رہنماؤں نے ترکی پر زور دیا ہے کہ وہ شام کے علاقے حلب میں تازہ حملوں کے بعد جان بچا کر نقل مکانی کرنے والے تقریباّ 35 ہزار مہاجرین کو پناہ دیں جبکہ ترکی کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کو سرحد پر ہی خوراک و رہائش دی جاری ہے ۔غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق یورپی یونین کی خارجہ اْمور کی سربراہ فیدریکا موگیرنی نے کہا کہ یہ قانونی کے بجائے اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ پناہ گزیبوں کو تحفظ فراہم کریں۔دوسری جانب ترکی کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کو اْن کی سرحد ہی میں خوراک اور رہائش فراہم کی جا رہی ہے۔ اس لیے انھیں سرحد عبور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اگرچہ ترکی کا کہنا ہے کہ وہ شامی مہاجرین کی مدد کرنے کو تیار ہے، لیکن اطلاعات کے مطابق ترکی نے شام کے ساتھ اپنی سرحد بند کی ہوئی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق شام میں جنگ کے آغاز سے اب تک ترکی 20 لاکھ سے زیادہ شامی مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دے چکا ہے اور یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا ترکی اتنی بڑی تعداد میں حلب سے آنے والے مہاجرین کو ایک ساتھ ملک میں داخل ہونے کی اجازت دے گا یا نہیں۔انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں ترکی سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ شامی مہاجرین کے لیے اپنے سرحدی راستے کھولے، لیکن دوسری جانب ترکی کو کئی یورپی ممالک کی طرف سے اس سفارتی دباؤ کا بھی سامنا ہے کہ وہ اپنے ہاں مزید تارکین وطن یا مہاجرین کو پنا نہیں دے سکتے اور ترکی کو اس سلسلے میں محتاط رہنا چاہیے۔حلب سے آنے والی مہاجرین کی اس تازہ لہر کے حوالے سے ترکی نے روس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس کی فضائی کاروائیوں کی وجہ سے علاقے کے لوگ اتنی تیزی کے ساتھ نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔دوسری جانب نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ روس کے فضائی حملے شام میں جاری جنگ کے سیاسی حل کی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔گزشتہ چند دنوں کے دوران روسی فضائیہ کی بمباری کے بعد شام کی سرکاری فوج کو حلب کے علاقے میں باغیوں کے خلاف کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔واضح رہے کہ جمعے کو شام کے سرکاری ٹیلی ویژن کا کہنا تھا کہ حکومت کی حامی طاقتوں نے حلب کے شمال میں رتیان کے قصبے سے باغیوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے اور اب رتیان حکومت کی حامی فوجوں کے ہاتھ آ گیا ہے۔شام کے سب سے بڑے شہر حلب کے قریب حکومتی فورسز اور باغیوں کے درمیان جاری لڑائی میں تیزی آئی ہے اور حکومتی دستے باغیوں کے اس اہم ٹھکانے کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔شام میں جاری خانہ جنگی اور انسانی حقوق پر نظر رکھنے والی برطانیہ میں مقیم تنظیم ’سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ کے مطابق رتیان نامی قصبے کے نواح میں ہونے والی لڑائی میں دونوں جانب سے تقریباً 120 جنگجو مارے گئے۔#/s#

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



رونقوں کا ڈھیر


ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…