ہفتہ‬‮ ، 20 دسمبر‬‮ 2025 

کروڑوں کی سیلاب زدہ گاڑیاں لاکھوں میں دستیاب

datetime 5  فروری‬‮  2016 |

لندن (نیو زڈیسک) 2015 ء کی یہ جیگوار نیلامی میں صرف 17 لاکھ روپے میں فروخت ہوئی ہے۔ایک وسیع و عریض میدان میں استعمال شدہ گاڑیوں کے درمیان کھڑے جمبو کمار مرسیڈیز بینز کار کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔29 سالہ کمار کے والد ساری عمر سکوٹر چلاتے رہے اور گاڑیوں کے پرزوں کا چھوٹا سا کاروبار کرنے والے کمار نے خود سنہ 2009 میں کار خریدی تھی۔ وہ اپنے خاندان میں گاڑی کے مالک بننے والے پہلے شخص تھے۔کمار نے جب اپنے دوستوں سے سنا کہ گذشتہ سال بھارت کے جنوبی شہر چنّئی (مدراس) میں آنے والے سیلاب میں ڈوبنے اور خراب ہونے والی گاڑیوں کی نیلامی ہو رہی ہے تو وہ بھی یہاں پہنچ گئے۔اب کمار اْس مرسیڈیز کے تلاش میں ہیں جس کے انھوں نے ہمیشہ خواب دیکھے ہیں لیکن کبھی اتنے پیسے نہیں جمع کر پائے کہ اسے خرید سکیں۔ اب گاڑی کے خریداری کے لیے ان کا بجٹ 10 لاکھ روپے ہے۔کمار کہتے ہیں ’میری بیگم کہتی ہیں اگر تم نیلامی میں گئے تو مرسیڈیز لے کر ہی واپس آنا۔ اسی لیے میں اچھی قیمت میں پسند کی گاڑی کی تلاش میں ہوں۔ اگر میرے والد زندہ ہوتے تو آج وہ مجھ پر بہت فخر محسوس کرتے۔‘کمار کے اردگرد بولی لگانے والے دیگر لوگ، استعمال شدہ گاڑیوں کے ڈیلر، خریدار اور کرائے کی گاڑیوں کا کاروبار کرنے والے افراد، اور ان سب کے گرد حّد نگاہ تک سینکڑوں گاڑیاں کھڑی ہیں۔دو ماہ قبل چنّئی میں آنے والے صدی کے بدترین سیلاب میں ان گاڑیوں میں بھی بارش اور گٹر کا پانی بھرگیا تھا۔زیادہ تر گاڑیوں پر اب بھی سیلابی ریلے کی مٹی کی دبیز تہہ چڑھی ہوئی ہے، ان کے اندرونی حصے میں کائی لگی ہے اور وہ خراب ہو چکے ہیں لیکن گاڑیوں کا یہ ’قبرستان‘ بہت سی خواہشات اور خوابوں کا محور ہے۔زیادہ تر گاڑیوں پر اب بھی سیلابی ریلے کی مٹی کی دبیز تہہ چڑھی ہوئی ہیچنّئی سے ایک ہزار کلومیٹر دور مغربی شہر پونے میں گاڑیوں کی مرمت کا کاروبار کرنے والے جیوتی رام چھوگلے بھی ایسے ہی خوابوں کے بیوپاری ہیں۔ان کے تین گاہکوں نے جب اس نیلامی کے بارے میں سنا تو انھوں نے چھوگلے کو چنّئی جانے والے جہاز میں سوار کرا دیا۔چھوگلے کہتے ہیں ’میں اپنے گاہکوں کے لیے لگڑری گاڑیاں ڈھونڈ رہا ہوں۔ میرے گاہک جیگوار، رینج روور، پورشے کی خریداری کے خواہشمند ہیں۔‘گاڑیوں کی خریدوفروخت کی ویب سائٹ cardekho (کار دیکھو) کے ابھیشک گوتم کے مطابق وہاں موجود گاڑیوں میں تقریباً 40 فیصد ایسی ہیں جنھیں بیمہ کمپنی والے مکمل خسارے کا بیمہ کہتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’ کمپنی کی ورکشاپوں پر ان گاڑیوں کی مرمت کرنا بہت مہنگا پڑتا ہے۔‘بیمہ کمپنیوں کو گاڑیوں کے کلیموں کے ایک طوفان کا سامنا ہے اور اس لیے وہ مردہ گاڑیوں کو دوبارہ فروخت کیلیے بھیج دیتے ہیں۔گوتم بتاتے ہیں کہ ان کی کمپنی کو دوبارہ فروخت کے لیے 18 بیمہ کمپنیوں کی جانب سے گاڑیاں موصول ہوئی ہیں اور وہ سیلاب میں تباہ ہونے والی 15 سو سے زائد گاڑیوں کی فروخت کی کوشش کر رہے ہیں۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



جو نہیں آتا اس کی قدر


’’آپ فائز کو نہیں لے کر آئے‘ میں نے کہا تھا آپ…

ویل ڈن شہباز شریف

بارہ دسمبر جمعہ کے دن ترکمانستان کے دارالحکومت…

اسے بھی اٹھا لیں

یہ 18 اکتوبر2020ء کی بات ہے‘ مریم نواز اور کیپٹن…

جج کا بیٹا

اسلام آباد میں یکم دسمبر کی رات ایک انتہائی دل…

عمران خان اور گاماں پہلوان

گاماں پہلوان پنجاب کا ایک لیجنڈری کردار تھا‘…

نوٹیفکیشن میں تاخیر کی پانچ وجوہات

میں نریندر مودی کو پاکستان کا سب سے بڑا محسن سمجھتا…

چیف آف ڈیفنس فورسز

یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ…

فیلڈ مارشل کا نوٹی فکیشن

اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں 2008ء میں شادی کا ایک…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(آخری حصہ)

جنرل فیض حمید اور عمران خان کا منصوبہ بہت کلیئر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(چوتھا حصہ)

عمران خان نے 25 مئی 2022ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)

ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…