کابل(نیوزڈیسک)جرمن میڈیانے کہاہے کہ کہ طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف لڑائی میں حکومت کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے، جن میں فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کا انتہائی زیادہ تناسب سر فہرست مسئلہ ہے،جرمن خبررساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے افغان لیفٹیننٹ امان اللہ نے بتایاکہ وہ اپنے ملک میں طالبان عسکریت پسندوں کی پیش قدمیوں کو روکنے کے لیے اپنی آخری سانس تک لڑنے کے لیے تیار تھے تاہم گزشتہ برس نومبر میں اس نے فوج کو چھوڑ دیا۔انہوں نے کہاکہ ہزاروں افغان فوجی تھک ہار کر اور الجھنوں کا شکار ہو کر وردی اتار چکے ہیں۔ یہ پیش رفت طالبان شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔رپورٹ کے مطابق امان اللہ کے لیے سب کچھ اس وقت بدلا، جب گزشتہ برس جنگجوں نے اس کے فوجی اڈے پر چاروں اطراف سے حملہ کر دیا اور لڑائی چار روز تک جاری رہی۔ مشین گنوں، راکٹ لانچروں اور دیگر اسلحے سے لیس ان جنگجوں کے مدمقابل ایسے افغان فوجی کھڑے تھے، جنہیں کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں تھیں اور حملے کے وقت وہ خالی پیٹ تھے۔ اس وقت مانگی گئی اضافی نفری کی درخواستوں کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا اور امان اللہ اپنے ساتھوں کو دم ٹوڑتے دیکھتا رہا۔قندھار کے قریب واقع بیس میں جب تین دن بعد جب لڑائی بند ہوئی تو امان اللہ اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ چلا گیا۔ اس نے فوجی نوکری کو خیر باد کہہ دیا۔ امان اللہ کے مطابق وہ فوج میں اِس لیے شامل ہوا تھا تاکہ اپنے اہل خانہ کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کی خدمت کر سکوں لیکن یہ نوکری سراسر خود کشی کے مساوی تھی۔2015 میں افغانستان کو اپنے قریب 170,000 فوجی اہلکاروں کے ایک تہائی حصے کا متبادل تلاش کرنا پڑا، جس کی وجوہات میں ہلاکتوں کی انتہائی اونچی شرح اور فوجیوں کا سروس کو چھوڑنا یا بغیر اطلاع کے بھاگ جانا شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار گزشتہ ماہ امریکی فوج کی جانب سے جاری کیے گئے تھے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف برسرپیکار افغان فوج کا ایک تہائی حصہ ان فوجیوں پر مشتمل ہے، جو ابھی ابھی تربیت ختم کر کے فوج کا حصہ بنے ہوں۔میڈیارپورٹ کے مطابق افغان فوج ان دنوں نئی بھرتیوں کے لیے مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ فوج کی جانب سے ٹیلی وژن پر اشتہارات نشر کرائے جاتے ہیں، جن میں ان فوجیوں کو دکھایا جا رہا ہے، جو ملک و قوم کے لیے بہت کچھ کرنے کو تیار ہوں۔ بڑے بڑے ہالوں میں کھانا کھاتے ہوئے اور شاندار مقامات پر ورزش کرتے ہوئے فوجیوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن بہت سے سابقہ فوجیوں کا کہنا ہے کہ میدان جنگ میں افغان فوجیوں کی حالت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔