تہران(نیوز ڈیسک) ایرانی جوہری ادارے کے نائب چیف کا کہنا ہے کہ عالمی طاقتوں سے معاہدے کے تحت ایران اس کے پاس موجود ‘بھاری پانی’ کا کچھ حصہ امریکا کو فروخت کرے گا۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق علی اصغر زریں نے ان رپورٹس کی تردید کی کہ ایران نے اراک جوہری ریکٹر کے اہم حصے کو ختم کردیا ہے، جو کہ تہران کے عالمی طاقتوں سے ہونے والے جوہری پروگرام معاہدے کے بدلے میں پابندیاں اٹھائے جانے کے حوالے سے اہم قدم تصور کیا جارہا تھا۔ایران کی نیوز ایجنسی آئی آر این اے کے حکام نے ایران کی ایٹمی توانائی کی تنظیم کے نائب سربراہ علی اصغر زریں کا کہنا تھا کہ ‘ایک تیسر ے فریق ملک کے ذریعے سے ایران امریکا کو 40 ٹن بھاری پانی فروخت کرے گا’۔انھوں ںے کہا کہ ‘برآمد کیے جانے والے بھاری پانی کا 6 ٹن جوہری سہولیات جبکہ دیگر امریکی ریسرچ سینٹر میں استعمال ہوگا’۔خیال رہے کہ ایران کی جوہری سائٹ اراک میں بھاری پانی کی پیداوار کا پلانٹ موجود ہے جو کہ گذشتہ کئی سالوں سے کام کررہا ہے۔واضح رہے کہ گذشتہ سال جولائی میں ایران اور 6 عالمی ممالک کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے کے مطابق ایران نے اراک کے بھاری پانی کے ریکٹر کو منتقل کرنے اور اس بات کی یقین دہانی کروانے کہ آئندہ یہ جوہری ہتھیار بنانے کے لئے استعمال نہیں ہوگا پر اتفاق کیا تھا۔یاد رہے کہ یہ معاہدہ ایران اور 6 عالمی طاقتوں (پی فائیو228وان گروپ) امریکا، برطانیہ، چین، فرانس، روس اور جرمنی کے درمیان طے پایا تھا.گذشتہ دنوں آنے والے رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ اراک کا اہم حصہ ہٹا دیا گیا ہے تاہم زریں کا کہنا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا ہے اور یہ بھی کہ تہران اب بھی معاہدے کے مطابق اس کے متبادل ڈیزائن کے حوالے سے امریکا اور چین کی مدد سے کام کررہا ہے۔یہ بھی پڑھیں: ایران جوہری معاہدہ: سیکیورٹی کونسل سے منظوریانھوں ںے کہا کہ اس حوالے سے ‘ہمارا دیگر ممالک سے ایک ٹھوس معاہدہ ہونا ضروری ہے، جس میں چین بھی شامل ہے۔۔۔۔’علی اصغر زریں کا کہنا تھا کہ معاہدے کا مسودہ رواں ہفتے یا آئندہ ہفتے میں سرکاری سطح پر تبادلہ کرلیا جائے گا۔’جب تک معاہدہ نہیں ہوتا، ہم اراک ریکٹر کے اہم حصوں کو ہٹانے کے حوالے سے عملی اقدامات نہیں کرے گے’۔یاد رہے کہ معاہدے کے تحت تہران اپنے سنٹری فیوجز کی تعداد میں کمی اور کم افزودہ یورینیم کے ذخیرے کے بڑے حصے کو روس منتقل کرے گا۔