واشنگٹن (نیوزڈیسک) امریکہ کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے پاکستان کے مختصر دورہ کو سراہتے ہوئے کہاہے کہ مودی کے دورہ پاکستان سے لگتا ہے بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کے ساتھ کشیدگی کی پالیسی ترک کر دی ہے۔ نیو یارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ نریندر مودی کے دورہ پاکستان سے لگتا ہے بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کے ساتھ کشیدگی کی پالیسی ترک کر دی ہے۔ امریکہ کے اس اہم اخبار نے بھارتی وزیراعظم کے اس اقدام کو ”سفارتی ڈانس“ قرار دیا ہے۔ امریکہ کے ایک اور اخبار دی ٹائمز نے لکھا ہے کہ دو ایٹمی طاقتوں بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلقات امریکی پالیسی سازوں کیلئے بہت زیادہ تشویش کا باعث تھے جن کا خیال تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان ”پراکسی وارز“ کہیں حقیقی جنگ میں نہ بدل جائے۔ اخبار نے لکھا کہ بھارتی وزیر اعظم نے افغانستان کے بارے میں بھی اپنی پالیسی کو نمایاں کیا ہے جس میں افغانستان کو فوجی امداد فراہم کرنا بھی شامل ہے تاہم ذاتی سفارتکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نریندر مودی نے عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے متعلق اپنی مبہم پالیسی بدلتے ہوئے کشیدگی کی بجائے بہتر تعلقات کی راہ اپنائی ہے۔ اس سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ ان کی انتظامیہ نے پاکستان کے ساتھ تجارت اور دہشتگردی پر مذاکرات کیلئے روڈ میپ تیار کیا ہے۔ وائس آف امریکہ کی عائشہ تنظیم نے اس حوالے سے کہا کہ کئی ماہ کی کشیدگی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی تیزی سے بحالی ہوئی ہے جس کا آغاز پیرس میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے سربراہ کانفرنس کے دوران دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے درمیان مصافحہ سے ہوا۔ ”وال سٹریٹ جنرل“ نے لکھا ہے کہ نریندر مودی کے اس اقدام سے دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان مصالحتی عمل میں تیزی آسکتی ہے۔ ”ٹائم میگزین“ نے لکھا ہے کہ نریندر مودی کا مختصر دورہ پاکستان ان کی سفارتی حکمت عملی کا سب سے بڑا حیران کر دینے والا واقعہ ہے۔امریکہ کے ”نیشنل پبلک ریڈیو“ نے اس حوالے سے کہا ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں کسی بھارتی سربراہ ریاست کا یہ دورہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کا باعث ہوسکتا ہے۔ ”لاس اینجلس ٹائمز“ نے لکھا ہے کہ دورہ پاکستان کرکے نریندر مودی نے طویل مشکل کے بعد تعلقات میں بہتری کے حوالے سے نئی سانس لی ہے۔ امریکہ کے ایک نمایاں تھنک ٹینک ”کونسل آن فارن ریلشنز“ کے صدر رچرڈ ہس نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اعلیٰ سطح کے سفارتی تعلقات کی ضرورت ہے۔