کابل،واشنگٹن،ماسکو(نیوزڈیسک)افغانستان میں طالبان نے پھر جڑ پکڑ لی، پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟دنیا کوسوال کا حیرت انگیز جواب مل گیا،تفصیلات کے مطابق افغانستان میں طالبان نے پھر جڑ پکڑ لی ہے اور مسلسل افغانستان میں متعدد علاقوں میں قابض ہوتے جارہے ہیں طالبان کی اس بار کی فتوحات میں نئی حکمت عملی اور نسبتاً جدید ہتھیاروں کا استعمال صاف نظر آرہا ہے ،طالبان نے ہلمند کے ضلع سنگین کے مرکز پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔واضح رہے کہ ضلع سنگین افغان حکومت کے لئے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے ،حکام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ طالبان نے ایک سرکاری عمارت اور پولیس سٹیشن کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔طالبان کا کہنا ہے کہ ان کے جنگجوو¿ں نے پورے ضلع پر قبضہ کر لیا ہے۔تاہم افغانستان کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ علاقے میں لڑائی جاری ہے اور پولیس اور فوجیوں کے لیے فوجی رسد پہنچائی گئی ہے۔ضلعے کے گورنر حاجی سلیمان شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں بدھ کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے ضلعی ہیڈکوارٹر سے لشکر گاہ میں ایک فوجی اڈے پر پہنچایا گیا تھا۔ ان کے مطابق ان کے ہمراہ پندرہ زخمی سکیورٹی اہلکار بھی تھے۔سنگین سے سات کلومیٹر دور افغان فوج کے ساتھ موجود ایک پولیس اہلکار اشفاق اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پورا‘ علاقہ شدت پسندوں کے کنٹرول میں ہے۔پولیس اہلکار کا کہنا تھا ’مدد کے لیے آنے والے دستوں کو ایک فاصلے پر اتارا گیا ہے۔۔۔ لیکن تمام سڑکیں بلاک ہیں اور شدت پسندوں کے کنٹرول میں ہیں۔‘ایک وقت تھا جب افغانستان میں موجود بین الاقوامی افواج ضلع سنگین کو اپنے مرکز کے طورپر استعمال کیا کرتی تھیں۔تاہم اب سنگین میں طالبان کی طاقت میں نہ صرف اضافہ ہوتا جا رہا ہے بلکہ طالبان ایک بار پھر اس ضلعے کو افغان فوجیوں سے واپس قبضے میں لینے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔خیال رہے کہ سنگین افغانستان کے صوبہ ہلمند کے شمالی ضلعوں کو دارالحکومت لشکرگاہ سے ملانے والا اہم ضلع ہے۔سنگین پر طالبان کے دوبارہ قبضے کی صورت میں صوبے کے شمالی علاقوں میں ان کی نقل و حرکت میں اضافہ ہو جائے گا جبکہ افغان فوجیوں کی لشکر گاہ سے اہم سپلائی لائن منقطع ہو جائے گی۔اس کے ساتھ ساتھ افیم کی بڑے پیمانے پر کاشت والا علاقہ ہونے کے باعث منشیات کی سمگلنگ پر محصولات کی مد میں طالبان کی آمدنی کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔اہم سوال یہ ہے کہ کیا طالبان حالیہ دنوں میں اس ضلعے کے علاقوں پر کیے جانے والے قبضے کو برقرار رکھ پائیں گے؟اس اہم ترین علاقے میں مقامی لوگوں کی بڑی تعداد میں حکومتی فوج کے خلاف غم و غصے کے جذبات پائے جاتے ہیںان علاقوں میں 90 فیصد ضلعوں پر طالبان قابض ہیں تاہم مرکزی علاقے حکومتی کنٹرول میں ہیں۔سنگین پر جنگجوو¿ں کے لیے قبضہ برقرا رکھنا آسان نہیں ہوگامقامی لوگوں کی بڑی تعداد میں حکومتی فوج کے خلاف غم و غصے کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ رواں سال کے اوائل میں ان علاقوں میں کی جانے والی فوجی کارروائیوں کے دوران حکومتی فوجوں نے غیر قانونی طور پر گھروں کو مسمار کیا تھا اور ان کے کھیتوں اور املاک کو نقصان پہنچایا تھا۔طالبان ممکنہ طور پر مقامی لوگوں کے ان جذبات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کریں گے اور مقامی آبادی کی تمام تر ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔اس سے قبل قندوز میں بھی انھوں نے یہی حکمت عملی اپنائی تھی اور وہاں جنگجوو¿ں کو مقامی شہریوں کے ساتھ تصاویر بنواتے ہوئے بھی دیکھا گیا تھا۔افغانستان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی میں روس کے اعلان نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا ہے جب روس نے کھلے عام طالبان سے دوستی کا اعلان کرتے ہوئے کہہ دیاکہ ماسکو کے مفادات طالبان کے مفادات سے ملتے ہیں اور وہ طالبان سے معلومات کا تبادلہ کر رہے ہیں،روس نے باقاعدہ طورپر طالبان سے روابط کو تسلیم کرتے ہوئے اعلان کردیا ہے کہ ا±س نے طالبان کے ساتھ روابط شروع کر دیے ہیں تاکہ نام نہاد تنظیم دولتِ اسلامیہ کے مشترکہ دشمن کے خلاف جنگ کی جا سکے۔صدر پوتن کے افغانستان میں خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف نے انٹرفیکس نیوز ایجنسی کو بتایا ہے کہ ماسکو کے مفادات اور طالبان کے مفادات سے ملتے ہیں اور وہ طالبان سے معلومات کا تبادلہ کر رہے ہیں۔شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی افغانستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں میں موجودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔روس کے وزیر دفاع سرگئی شوگو نے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ روس کرغزستان کی افواج کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے تاکہ ہو دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کے خطرے کا سامنا کر سکیں۔کرغستان کے حکام کا کہنا ہے کہ کرغستان کے چار سو کے قریب شہری دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں میں شامل ہو کر شام اور عراق میں سرگرم عمل ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے بہت سے واپس آ گئے ہیں اور ملک کے لیے کسی وقت بھی خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ادھر امریکی مبصرین نے الزام عائد کیا ہے کہ روس پس پردہ طالبان کو مشاورت اور اسلحہ بھی فراہم کررہا ہے تاکہ افغانستان میں امریکی اور اتحادی فوج کو ناکام بنایاجاسکے۔ ان حالات میںیہ صاف ظاہر ہے کہ افغانستان ایک بارپھر دنیا کا فلیش پوائنٹ بن چکا ہے جہاں دو عالمی طاقتیں ایک دوسرے کے سامنے صف آراءہوگئی ہیں۔لیکن اب کی بار روس وہی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے جو کسی زمانے میں امریکہ نے جہادیوں کی مدد کرکے روس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے اپنائی تھی اور کامیاب رہاتھا۔