کراچی(نیوزڈیسک)بھارتی اخبارنے دعوی کیاہے کہ امریکاپاکستان کو8ایف 16طیارے فروخت کرے گا۔امریکاکی اوباما انتظامیہ دسمبر میں باضابطہ طور پر امریکی کانگریس کو ا س ڈیل کے بارے میں امریکی کانگریس کومطلع کرے گی کہ اس کاپاکستان کوآٹھ ایف 16 لڑاکا طیارے فروخت کرنے کا ارادہ ہے۔ اسے کانگریس میں ایک تحریک کی صورت میں پیش کیا جائے گا ،اس عمل سے فروخت کو ضمانت مل جائے گی اور کانگریس میں اس کے خلاف ہمدردیاں اور ووٹ حاصل ہونے سے بچا جا سکے گا۔بھارتی اخبار”ہندوستان ٹائمز“ کے مطابق جوہری ہتھیاروں کو روکنے کے بدلے امریکا پاکستان کوبھارت کی طرح کے ایک جوہری معاہدے کی پیشکش کرنے کے لئے تیار تھاتاہم بھارتی نڑاد امریکیوں نے اس معاہدے کو نہیں ہونے دیا۔ اسی طرح امریکا میں ہندو لابی پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فروخت کے خلاف سرگرم ہے۔کثیر المقاصد لڑاکاطیارہ ایف سولہ امریکی فرم لاک ہیڈ مارٹن کے تیار کردہ ہیں۔پاکستان کے پاس 70طیارے پہلے سے موجودہیں۔ مزید آٹھ طیاروں کی فروخت نے بھارت اور امریکا میں موجود بھارت نواز لابی کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ وہ پاکستان کو اس کی فروخت سے روکنے کی مہم چلائے ہوئے ہیں تاہم دسمبر میں نوٹیفیکیشن جاری ہونے سے مخالف مہم کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ریپبلکن پار ٹی کی حمایت کرنے والی ہندولابی کے شالی کمار کا کہنا ہے کہ ہمارا پہلا کام پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فروخت سے امریکا کو روکنا ہے۔امریکی یہودی کمیٹی بھی پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش ہے۔ امریکی تھنک ٹینک وڈ رو ولسن سینٹر بھی پاکستان کی مخالفت میں ہے۔غیر ممالک کو امریکی ملٹری ہارڈ ویئر کی فروخت کی منظوری محکمہ خارجہ دیتا ہے جس کی توثیق کانگریس کرتی ہے۔ ترجمان کے مطابق پالیسی کے تحت باضابطہ طور پر کانگریس کی توثیق سے قبل غیر ملکی فوجی فروخت پر تبصرہ نہیں کرتے۔نوٹیفیکیشن کے بعدایک خاص مدت میں انتظامیہ کو کانگریس کی طرف سے اگرکوئی جواب نہیں ملتا ہے تو فروخت کا عمل جاری رہتا ہے اگر جواب ”نفی “ میںآ ئے تو فروخت کا عمل رک جاتا ہے تاہم ایگزیکٹو برانچ شاذ و نادر ہی کانگریس کے خلاف جاتی ہے۔وزیر اعظم نواز شریف کے اکتوبر کے دورہ امریکاکے دوران اس بارے میں نوٹیفکیشن جاری ہونے کی رپورٹس کو وائٹ ہاﺅس نے سختی سے مسترد کردیا تھا۔اوباماانتظامیہ نے دورے کے دوران غیر رسمی نوٹیفکیشن یا پری نوٹیفکیشن جاری کرنے کیلئے کانگریس کو لیٹر آف آفر بھیجا اور اس وقت اعلان کیا جانا تھا لیکن نہ کیا جاسکا۔ اوباما انتظامیہ نے ان رپورٹوں کی تردید کی کہ کانگریس کو اس سلسلے میں مطلع کیا گیا۔