برسلز(نیوزڈیسک)بلجیم نے اپنے دارالحکومت برسلز میں “انتہائی خطرے” کا انتباہ جاری کرتے ہوئے سکیورٹی کو انتہائی درجے تک بڑھا دیا ہے۔حکومت نے خطرے کو درجہ چار تک بڑھا دیا جو کہ انتہائی خطرے کے زمرے میں آتا ہے۔بیلجیئم کے وزیراعظم چارلس مچل کا کہنا ہے کہ کچھ محدود اطلاعات ہیں کہ اسلحے اور دھماکہ خیز مواد سے لیس کئی افراد حملہ کرسکتے ہیں، شاید کئی مقامات پر۔برسلز کا مرکزی علاقہ دہشت گردی کے خطرے کے باعث ویران ہوگیا ہے۔ چند گھنٹے قبل پیرس جیسے حملوں کے خدشات کے اظہار کے بعد شہر کے ریستوران اور دیگر مقامات بند کر دیے گئے ہیں۔شہر کی سڑکوں پر فوج کے دستے گشت کر رہے ہیں اور مبینہ شدت پسند صالح عبدالسلام کی تلاش جاری ہے جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ خودکش بیلٹ سے مسلح ہیں۔اطلاعات کے مطابق وہ برسلز میں موجود تھے اور شام جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ایک سرکاری بیان میں کہا گیا کہ ” یہ برسلز کے خطے کو سنگین خطرے” کو اجاگر کرتا ہے۔ بیان میں شہریوں کو متنبہ کیا کہ اگر ممکن ہو تو وہ پرہجوم مقامات سے دور رہیں۔انتہائی خطرے کا یہ انتباہ پیرس میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے ایک ہفتے بعد سامنے آیا ہے جہاں داعش سے وابستہ شدت پسندوں نے مختلف مقامات پر حملے کر کے 130 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔اس حملے کے ایک اہم ملزم صالح عبدالسلام کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ وہ بیلجیئم میں ہیں۔ اسے آخری مرتبہ فرانس سے بیلجیئم کی سرحد پر دیکھا گیا جہاں پولیس نے اسے روکا اور اس سے پوچھ گچھ کے بعد اسے جانے دیا۔جمعہ کو دیر گئے بیلجیئم نے ایک تیسرے پر بھی پیرس حملوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا لیکن اس کی شناخت یا تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔ حکام نے پہلے ہی دو افراد کو ایسے ہی الزامات کے تحت تحویل میں لے رکھا ہے۔جمعرات کو برسلز کے مختلف علاقوں میں نو چھاپے مارے گئے اور نو افراد کو حراست میں لیا گیا۔جہاں یہ چھاپے مارے گئے ان میں ایک وہ جگہ بھی شامل ہے جہاں عبدالسلام اپنے بھائی ابراہیم عبدالسلام کے ساتھ رہتا رہا ہے۔ ابراہیم نے خود کو پیرس حملوں کے دوران بارودی مواد سے اڑا لیا تھا۔خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے پیرس میں ہونے والے حملوں میں ملوث شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے حملہ آوروں نے برسلز میں قیام کیا تھا۔ ان حملوں میں 130 افراد ہلاک ہوئے تھے۔بیلجیئم کے وزیراعظم چارلس مچل کا کہنا ہے کہ کچھ محدود اطلاعات ہیں کہ اسلحے اور دھماکہ خیز مواد سے لیس کئی افراد حملہ کرسکتے ہیں، شاید کئی مقامات پر۔صالح عبدالسلام کو بیلجیئم لے جانے والے ایک ڈرائیور نے اپنی وکیل کو بتایا کہ عبدالسلام نے ایک بڑی جیکٹ پہن رکھی تھی اور شاید وہ دھماکے کے لیے تیار تھے۔وکیل کیرین کوکوئلیٹ نے بیلجیئن ٹی وی پر ان خدشات کا اظہار کیا، انھوں نے اس امر کا بھی اظہار کیا کہ صالح عبدالسلام پیرس میں خود کو دھماکے سے اڑاسکتے تھے لیکن انھوں نے اپنا فیصلہ تبدیل کر لیا۔ صالح عبدالسلام کے دوستوں نے سکائپ پر اے بی ای نیوز کو بتایا کہ وہ برسلز میں چھپے ہوئے تھے اور شام جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ان کا کہنا تھا یورپی حکام اور نام نہاد دولت اسلامیہ کے ان ارکان کے درمیان پھنس گئے ہیں جو ان پر ’نظر رکھے ہوئے ‘ تھے اور ان کے خودکش حملہ نہ کرنے پر ناخوش تھے۔ان حالات میں بیلجیئن حکام نے شہر میں سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی ہے۔عوام کو پرہجوم مقامات سے دور رہنے کی تنبیہ کی گئی ہے جبکہ سینیما اور میٹرو سروس بھی بند ہے۔ شاپنگ مالز، کیفے اور ریستورانوں کو شام چھ بجے بند کرنے کا کہا گیا ہے جبکہ سڑکوں پر فوج تعینات ہے۔وزیراعظم چارلس مچل کا کہنا ہے کہ حکومت اتوار کو برسلز میں سکیورٹی کی صورتحال کا دوبارہ جائزہ لے گی۔دوسری جانب ترکی میں حکام نے کہا ہے کہ بیلجیئم کے ایک شہری کو پیرس حملوں سے تعلق کے شبہ میں ا±س وقت گرفتار کیا گیا ہے جب وہ دو دیگر مشتبہ شدت پسندوں سمیت شام جا رہے تھے۔مراکشی نڑاد احمد داھمانی کو ترکی ساحلی شہر انتالیہ کے ایک ہوٹل سے حراست میں لیا گیا۔ایک ترک عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ 26 سالہ ملزم کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ پریس میں حملے کرنے والوں سے رابطے تھا۔ انھوں نے کہا کہ داھمانی ایک ہفتے قبل ایمسٹرڈم سے آئے تھے اور دو دیگر مشتبہ شدت پسندوں کے ساتھ شام جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ ان افراد کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں