دہشت گردی نفسیاتی اور فکری بیماری ہے: شیخ الازہر

22  ‬‮نومبر‬‮  2015

قاہرہ (آن لائن)مصر کی تاریخی درسگاہ جامعہ الازہر کے سربراہ ڈاکٹر احمد الطیب نے دہشت گردی کو نفسیاتی اور فکری بیماری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مرض کا سماوی ادیان سے کوئی تعلق نہیں۔ صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ موت کے سوداگروں، شر کے ٹھیکداروں اور خون کی تجارت کرنے والوں کا مستقبل کیسا ہو گا؟ان خیالات کا اظہار انہوں نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے ملاقات کے لئے جانے والے مسلمان فلسفیوں سے ملاقات میں کیا۔ ڈاکٹر احمد الطیب کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے سیاہ عفریت نے لبنان میں عروبہ اور بقائے باہمی کا خون کیا، گزشتہ ہفتے اس نے اپنے پنجے فرانس کے دارلحکومت میں گاڑ لئے۔ ابھی پیرس کی تباہی سے باہر نہیں نکلے تھے کہ ہمیں مالی ریپبلک کے بحران آن لیا جس کے اندر باماکو کے متعدد یرغمالی مارے گئے۔شیخ الازہر کا کہنا تھا کہ دہشت گردی اول وآخر سوچ اور یقین کا نام ہے۔ اسے حرز جان بنانے والوں کے لئے یہ فلسفہ حیات ہے جس کی خاطر وہ مرنے اور خودکشی پر تیار ہو جاتا ہے۔ یہ نام نہاد سوچ کسی بھی سماوی دین کی پیداوار نہیں ہے بلکہ نفسیاتی اور فکری بیماری ہے جس میں مبتلا شخص اپنے موجودگی کا جواز دینی احکامات میں تلاش کرتا ہے۔ تاریخ اور معاصر حقائق سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ دہشت گردی کے سوتے صرف دین سے انحراف سے ہی نہیں پھوٹتے بلکہ دین کی جعلی تفسیر بھی اس کا اہم سبب ہے۔ڈاکٹر احمد الطیب نے کہا کہ مسلمانوں کے ذہنوں میں دین کو ڈھال بنا کر کئے جانے والے جرائم اور اصل دین کے درمیان کسی قسم کا اختلاط نہیں ہونا چاہئے۔ نیز مغرب میں جو لوگ اللہ کے گھروں اور اس کی کتاب کو نذر آتش کرتے ہیں وہ بھی ہر لحاظ سے دہشت گردی ہے بلکہ میں کہوں گا کہ ایسے اقدامات دہشت گردی کو بھڑکانے کے لئے تیل کا کام کرتے ہیں۔ دہشت گردی کا جواب دہشت گردی سے نہیں دیا جانا چاہئے۔ جو لوگ دوسروں کے مقدس مقامات کی توہین کرتے ہیں انہیں اس بات کے انتظار میں نہیں رہنا چاہئے کہ دوسرے اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کریں گے۔شیخ الازہر نے نفرت اور حسد کے خاتمے پر زور دیتے ہوئے بھائی چارے، محبت اور عمومی برادری کے اس کلچر کو فروغ دینا چاہئے جس کا پرچار شیخ الازہر پروفیسر محمد مصطفی المراغی نے 1936 کو لندن میں ہونے والی دینی علمائ کی کانفرنس سے خطاب میں کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ مسلمان فلاسفہ کونسل اسلامی کلچر کے فروغ اور دین کے صحیح فہم کی ترویج کی خاطر دنیا بھر میں 16 وفود ارسال کرے گی تاکہ اس بات کو ذہنوں میں راسخ کیا جا سکے کہ انسانیت کی نظر میں تمام اقوام عالم برابر ہیں اور تمام لوگوں کو بلاتفریق، امن وامان اور سلامتی کے ساتھ زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔



کالم



اللہ کے حوالے


سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…