ریاض(نیوزڈیسک)سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان کے اقتدار میں آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد ان کی حکومت کے خلاف سازشوں کی افواہیں عالمی میڈیا میں گردش کرنے لگیں جو اب تک وقفے وقفے سے جاری ہیں۔ سعودی حکومت کو خواتین کے حقوق کے حوالے سے اور انسانی حقوق پر کام کرنے والوں کو ملک میں داخلے کی اجازت نہ دینے کے معاملے پربھی بین الاقوامی دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔شاہ سلمان کے بااختیار بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان اور ان کے انتہائی قریبی مشیروں نے اب اس صورتحال پر قابو پانے کا فیصلہ کرتے ہوئے ایک منشور جاری کر دیا ہے جس کے تحت ملک میں بڑی تبدیلیاں لائی جائیں گی۔برطانوی اخبار ’’دی ٹیلیگراف‘‘ کی رپورٹ میں تاثر دیا گیا ہے کہ شاہ سلمان کے برسر اقتدار آنے پر شاہی خاندان کے کچھ حلقے ناخوش ہیں اور فرمانروا کے ایک بھائی کو حکمران دیکھنا چاہتے ہیں، اور اس تناظر میں اہم اصلاحات متوقع ہیں۔ اس منشور کے تحت حکومت ملکی بجٹ میں بڑی کٹوتیاں کرے گی، ملکی معیشت میں پرائیویٹ سیکٹر کا کردار بڑھائے گی اور ملک کے بنیادی حکومتی ڈھانچے میں نمایاں اصلاحات لائے گی۔اس بڑے پیمانے پر تبدیلیاں سعودی عرب کی تاریخ میں اس سے قبل نہیں کی گئیں۔برطانوی اخبار کی رپورٹ میں منشور تیار کرنے والے مشیروں کے ذرائع کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ اس بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لانے سے سعودی حکومت کو کچھ لوگوں کی طرف سے پریشانی کا سامنا تو ہو سکتا ہے لیکن کوئی بڑا بحران پیدا ہونے کا خدشہ نہیں ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ عالمی میڈیا سعودی شاہی خاندان کے درمیان پڑنے والی پھوٹ کے متعلق تو بات کر رہا ہے مگر سعودی عوام کی بات کوئی نہیں کرتا جو ملک میں معاشی اصلاحات چاہتے ہیں ہیں۔عوام سلطنت کی بہتر تنظیم چاہتے ہیں تاکہ یہ ایک معاشی طاقت بن سکے اور یہ سب بڑی تبدیلیوں کے بغیر ممکن نہیں۔ذرائع نے دی ٹیلی گراف سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کا معاملہ عالمی سطح کا مسئلہ بن چکا ہے اور بظاہر لگتا ہے کہ اس معاملے کو بہتر انداز میں حل کرنے کی ضرورت ہے۔