واشنگٹن (نیوز ڈیسک)اوباما انتظامیہ نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے لیے ملنے والی رقم یعنی کولیشن سپورٹ فنڈز جاری رکھنے کے لیے کانگریس کے سامنے درخواست بھیج دی ہے لیکن اس کے بعد اس کے مستقبل پر کچھ بھی کہنے سے انکار کیا ہے۔ واشنگٹن میں ایک انتظا می اہلکار نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکی انتظامیہ نے پاکستان کی طرف سے لشکر طیبہ اور اس کے حامی دھڑوں کے خلاف کارروائی کرنے کے وعدے کو ایک نئی پہل قرار دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی مسئلہ کشمیر پر مصالحت کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔انتظامیہ کے ایک اعلی اہلکار نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ’پاکستان کافی عرصے سے اس طرح کا مطالبہ کرتا رہا ہے لیکن صدر اوباما کہہ چکے ہیں کہ وہ اس کے لیے صرف اس صورت میں راضی ہوں گے جب بھارت اور پاکستان دونوں اس کے لیے تیار ہوں۔‘لائن آف کنٹرول کی نگرانی کے لیے جس طرح کی میکنزم کا ذکر وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ملاقات کے بعد جاری مشترکہ بیان میں کیا گیا ہے اس پر بھی اہلکار کا کہنا تھا کہ اس کے لیے بھارت اور پاکستان دونوں ہی کو تیار ہونا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان کو باہمی معاملے دو طرفہ بات چیت سے حل کرنے ہوں گے۔‘لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے اوباما اتنظامیہ کے اہلکار کا کہنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے یہ ایک نئی پہل ہے اور یہ انتہائی اہم ہے۔ان کا کہنا تھا: ’نیشنل ایکشن پلان کے تحت پاکستان نے پہلے ان تنظیموں کو نشانہ بنایا جو پاکستان کے خلاف ہیں۔ اب انھوں نے اسی نیشنل ایکشن پلان کے تحت لشکر طیبہ اور اس کے حامی گروپوں کے خلاف کارروائی کی بات کی ہے۔‘انھوں نے پاکستان کے اس فیصلے کو قابل تعریف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دکھائی دیتا ہے کہ اب پاکستان سمجھتا ہے کہ ان گروپوں سے پاکستان، آس پڑوس کے ملک، امریکہ اور دوسرے ممالک کو خطرہ ہے۔اہلکار نے یہ بھی بتایا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے بھارت کے خلاف ثبوتوں کے دستاویز سیکریٹری خارجہ جان کیری کو پیش کر دیے ہیں لیکن فی الحال اس پر کوئی بیان دینے سے انکار کیا ہے