تہران(اے این این) ایران میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم نے انکشاف کیا ہے کہ ایرانی رجیم کے ہاتھوں سیاسی بنیادوں پر شہریوں کو دی جانے والی پھانسیوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواں سال کے دوران سزائے موت پرعمل درآمد کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال جنوری سے 8 اکتوبر تک 800 افراد کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیم نے اپنی ویب سائیٹ پر پوسٹ کیے گئے بیان میں بتایا ہے کہ پھانسی کی سزا پانے والے 500 افراد منشیات جیسے دھندے میں ملوث پائے گئے تھے اور ان کا تعلق ایران کے نہایت غریب اور نادار طبقات سے تھا۔انسانی حقوق کی تنظیم نے موت کے گھاٹ اتارے گئے افراد کے مقدمات کی عدم شفافیت پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ جن لوگوں کو پھانسی کی سزا دی گئی انہیں عدالتوں میں پیش نہیں کیا، جسے عدالت میں پیش کیا گیا اسے اپنے دفاع میں وکیل کے حق سے محروم رکھا گیا تھا۔ نیز انہیں دوران حراست تشدد کرکے اقرار جرم کرنے پر مجبور کیا گیا۔انسانی حقوق کی تنظیم کے ترجمان ڈاکٹر محمود امیری مقدم کا کہنا ہے کہ تہران حکومت یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ لوگوں کو اندھا دھند پھانسیاں دینے کے باوجود ملک میں جرائم کی شرح میں کمی نہیں ہوئی ہی۔ خاص طورپر منشیات جیسے دھندے میں ملوث افراد کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے لیکن حکومت اس کے باوجود منشیات کے استعمال اور اس کے کاروبار میں ملوث افراد کو موت کی سزائیں دیے جا رہی ہے۔انسانی حقوق کی تنظیم ماضی میں عالمی برادری سے اسرائیل کے ساتھ انسداد منشیات کے شعبے میں تعاون ختم کرنے کا بھی مطالبہ کرچکی ہے۔ انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے کہ ایران جب تک منشیات کی آڑ میں گرفتار کیے گئے شہریوں کو پھانسیاں دینے کا سلسلہ بند نہیں کرتی تب تک عالمی برادری تہران کے ساتھ تعاون ختم کردے۔