ٓاسلام آباد(نیوز ڈیسک)شدت پسند پسند تنظیم دولت اسلامیہ عراق وشام داعش نے اپنی صفوں میں نہ صرف مرد نوجوانوں کرنے کے لیے انہیں متاثر کیا ہے بلکہ بڑی تعداد میں خواتین بھی داعش میں موجود ہیں۔ اگرچہ داعش کے ہاں خواتین کا ایک عسکری ونگ بھی موجود ہے جس میں شامل خواتین باقاعدہ جنگ میں حصہ لیتی ہیں مگر داعش خواتین کے کچھ دیگر مشاغل بھی ہیں۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق حال ہی میں انٹرنیٹ پر خود ساختہ مبلغ کا ‘فتویٰ’ سامنے آیا ہے۔ ابو عبداللہ المنصور نامی داعشی مبلغ نے سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کے استفسار پر کہ”خواتین میدان جنگ میں مجاھدین کی کیا خدمت کر سکتی ہیں؟” جواب دیا ہے۔ داعشی عالم نے خواتین کے لیے کوئی خاص کام مختص تو نہیں کیا تاہم انہوں نے کہا کہ خواتین بھی میدان جنگ میں ہر طرح کی خدمت کر سکتی ہیں۔ وہ مریضوں اور زخمیوں کا علاج ، کپڑوں کی سلائی، باورچی اور دھوبی جیسے پیشے اپنا سکتی ہیں۔داعشی جنگجو کا کہنا ہے کہ نرسنگ کے ساتھ ساتھ خواتین کو اپنے دفاع سے بھی غافل نہیں رہنا چاہیے۔ خواتین کے لیے اسلحہ سازی اور اسلحہ کے استعمال میں کوئی امرمانع نہیں ہے۔ خواتین اپنے دفاع اور دشمن کے خلاف لڑائی کے لیے پستول، بندوق، کلاشنکوف چلانے کے ساتھ ساتھ دستی بم بنانے اور بارودی جیکٹیں بھی تیار کر سکتی ہیں۔داعشی جنگجوﺅں کی جانب سے خواتین کو بارودی جیکٹیں تیار کرنے کی اجازت ہی نہیں دی بلکہ عملاً اس کا مظاہرہ بھی دیکھا گیا ہے۔ داعش کے ہاں لونڈی بنائی گئی ایک فلپائنی لڑکی کو بہ طور مثال پیش کیا گیا ہے جو جنگجوﺅں کے ہاں گھریلو کام کاج کے ساتھ بارودی جیکٹ بھی پہنے رکھتی ہے۔ابو عبداللہ نامی داعشی عالم کا کہنا ہے کہ خواتین چاہے کسی اسپتال میں ہوں یا گھر میں ہوں۔ جب ان پر پولیس حملے کرے تو وہ اپنا دفاع بارودی جیکٹ کے ذریعے کرسکتی ہیں۔ اس کے لیے انہیں کسی سے اجازت لینے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔داعش کی شدت پسندی اپنی جگہ مگر تنظیم کی جانب سے خواتین کو اپنے جسم کو مضبوط بنانے کے لیے مسلسل ورزش کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ تاہم ورزش کے دوران ستر پوش لباس پہننے اور مردوں سے دور خفیہ مقامات پر ورزش کی اجازت ہے۔