کابل (این این آئی) افغان صوبہ قندوز میں طالبان نے حکمت عملی بدل لی۔ نئے جنگی حربے اختیار کر رہے ہیں۔ سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں پر فائرنگ کے بعد موٹرسائیکلوں پر رہائشی علاقوں میں فرار ہو جاتے ہیں۔ قائم مقام گورنر حماداللہ دانش نے میڈیا کو بتایا انہوں نے پالیسی بدل لی۔ اب وہ براہ راست جھڑپوں سے کتراتے ہیں۔ ان کا مقصد علاقہ مکینوں میں خوف و ہراس پھیلانا ہے۔ ادھر جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔ ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا پولیس ہیڈکوارٹرز اور گورنر کمپاؤنڈ کا محاصرہ کر لیا۔ مقامی حکام نے دعویٰ مسترد کر دیا ہے۔ پولیس کے مطابق کابل میں روسی سفارتخانے کے قریب رہائشی علاقے میں 10 گھنٹے کی طویل جھڑپ میں 3 طالبان مارے، 7 اہلکار زخمی ہو گئے۔ طالبان نے کہا کابل میں انٹیلی جنس سنٹر پر خودکش حملہ کیا ہے۔ 2016ء کے بعد بھی امریکہ کو افغانستان میں فوج رکھنے پر غور کرنا چاہئے تاکہ طالبان کے حملے روکے جائیں۔ سکیورٹی صورتحال کے سبب پہلے پلان پر نظرثانی کرنا پڑ سکتی ہے۔ اب 9800 امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں۔ 2015ء کے آخر تک انکی تعداد نصف کر دی جائیگی۔ قندوز میں حملے سے قبل ہماری کمانڈوز افغان فوجیوں کو مشاورت اور تربیت دے رہے تھے۔ امریکی کمانڈر جان کیمبل نے سینٹ کی آرمڈ کمیٹی کے سامنے بیان دیتے اعتراف کیا قندوز ہسپتال پر بمباری غلطی تھی۔ انکوائری کر رہے ہیں آئندہ کسی بھی مرکز کو نشانہ نہیں بنایا جائیگا۔ ادھر امریکی اخبار کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے اوباما نے 2016ء کے بعد بھی افغانستان میں 5 ہزار امریکی فوجی تعینات رکھنے پر سنجیدگی سے غور شروع کر دیا۔ قندوز کے ہسپتال پر امریکی بمباری سے پیدا صورتحال بھی امریکہ کیلئے جنگ ہنسائی کا سبب بنی ہے۔ افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر کیمبل نے کہا ہے کہ ایران افغانستان میں طالبان کو اسلحہ اور فنڈز دے رہا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کا مؤقف بھی یہی رہا ہے کہ اشرف غنی حکومت پاکستان سے مل کر کام کرنا چاہتی ہے ایسے میں ایران سے طالبان کو سپورٹ کیا جا رہا ہے۔ امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ طالبان جنگجو داعش کا حصہ بن رہے ہیں۔