ویانا(نیوزڈیسک)یورپی یونین کی اعلیٰ ترین عدالت نے آسٹریا کے اس اسٹوڈنٹ کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے، جس نے دعویٰ کر رکھا تھا کہ امریکا اور یورپی یونین کے مابین آن لائن ڈیٹا کے تبادلے کا معاہدہ صارفین کے مفادات کے منافی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق منگل کو سنایا جانے والا یہ عدالتی فیصلہ یورپ میں کاروبار کرنے والی سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس اور انٹرنیٹ کمپنیوں کی کارکردگی پر دور رس نتائج مرتب کر سکتا ہے۔ دو سال پہلے قانون کی تعلیم حاصل کرنے والے ایک طالب علم میکس شرَیمز اس وقت یہ کیس عدالت میں لے کر گئے تھے، جب امریکا کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن نے یہ انکشاف کیا تھا کہ امریکا یورپ میں جاسوسی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس طالب علم کا کہنا تھا کہ اگر یورپی یونین کے شہریوں سے متعلق ڈیٹا امریکا میں جمع کیا جائے گا تو یہ محفوظ نہیں ہوگا۔ اس اسٹوڈنٹ کا کہنا تھا کہ فیس بک جیسی امریکی کمپنیوں اور امریکی خفیہ ایجنسیوں کو سخت پیغام دیا جانا چاہیے کہ وہ یورپی شہریوں کا ڈیٹا امریکا میں جمع نہیں کر سکتیں۔ذاتی ڈیٹا کی رازداری کے لیے کام کرنے والے آسٹریا کے اس طالب علم نے کہاکہ یہ فیصلہ امریکا کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، جو پرائیویٹ پارٹنرز کی مدد سے دنیا بھر میں جاسوسی جاری رکھے ہوئے ہے۔میکس شرَیمز نے مزید کہاکہ مذکورہ فیصلہ یہ واضح کرتا ہے کہ امریکی کاروباری ادارے امریکا کی طرف سے جاسوسی میں اس کو مدد فراہم اور یورپی شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔