پورنیہ(نیوزڈیسک)بھارتی ریاست بہار میں گاؤں کو ”پاکستان “ کا نام دے دیا گیا میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست بہار کے ضلع پورنیہ کے ایک گاؤں کو پاکستان کا نام دے دیا گیا غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہوسکتا ہے کسی شخص کی خواہش ہو کہ عوامی ذہنوں میں تقسیم برصغیر کی یاد ہمیشہ زند رہے جس کی وجہ سے گاؤں کو پاکستان کا نام دیاگیا بھارتی گاؤں پاکستان تین سو افراد کی آبادی پر مشتمل ہے جہاں ایک مسجد بھی نہیں بلکہ وہاں کوئی مسلمان ہی آباد نہیں درحقیقت وہاں کے رہنے والے ایک قبائلی گروپ سانتھل سے تعلق رکھتے ہیں۔تقسیم ہند کے وقت یہ بنگال کے ضلع اسلام پور کا حصہ تھا جسے پاکستان کا نام ان مسلم رہائشیوں کی یاد میں دیا گیا جو یہاں سے ہجرت کرکے مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) چلے گئے روانگی سے قبل ان مسلمانوں نے اپنی جائیدادیں پڑوسی علاقوں کے ہندؤں کے حوالے کردی تھیں۔ چھ دہائیوں بعد بھی اس گاؤں کی زندگی میں کوئی نمایاں تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی اور یہاں کے رہائشی بدستور غریب ‘ شرح تعلیم 31.51 فیصد ہے۔گاؤں میں سڑکیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور یہی حال بجلی، صاف پانی، ایک طبی مرکز اور اسکولوں کا ہے۔یہاں کے باسیوں نے 2014 کے عام انتخابات میں نریندرا مودی کو ووٹ دیا تھا اور ان کا خیال تھا کہ وہ یہاں کے رہنے والوں کی زندگیوں میں تبدیلی لائیں گے مگر کچھ نہیں ہوسکا ایک 67 سالہ رہائشی گیوتر مرمر اب زیادہ خوش نہیں اب جب الیکشن لڑنے والے ہمارے گاؤں آکر ہمارے مسائل کو سنے اور ان کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائیں گے تو جب ہی ہم انہیں ووٹ دینے کا فیصلہ کریں گے وگرنہ ہم پولنگ کا بائیکاٹ کریں گے آخر ہمیں پولنگ بوتھوں میں جاکر کیا فائدہ ہوتا ہے؟پندرہ سالہ ڈسیکا ہسدا نے پانچویں جماعت تک پڑھا ہے اور وہ اس گاؤں کی واحد تعلیم یافتہ ہستی ہے یہی وجہ ہے کہ جب قصبے، ریاست اور ملک میں کچھ بڑا واقعہ پیش آتا ہے تو لوگ اخبار خرید کر لاتے ہیں اور اسے ڈسیکا کے پاس لاتے ہیں جو پڑھ کر سناتی ہے۔ڈسیکا کے مطابق اگر کوئی رات کو بیمار ہوجائے تو ہمیں اسے ہسپتال لے جانے کے لیے صبح تک انتظار کرنا ہوتا ہے اور سڑک نہ ہونے کی وجہ سے یہ کام بہت مشکل ثابت ہوتا ہے۔یہاں روزگار کا بنیادی ذریعہ کاشتکاری ہے اور اس حوالے سے حکومتی امداد نہ ملنے پر بھی مقامی رہائشی کچھ زیادہ خوش نہیں۔