اسلام آباد(نیوزڈیسک)سعودی عرب میں حج کے دوران منیٰ کے مقام پر بھگدڑ کے نتیجے میں سیکڑوں حجاج کرام کی شہادت کے واقعے کے بعد یہ انکشاف ہواہے کہ حادثے میں کئی ایرانی سفارت کار بھی مارے گئے ہیں اور بعض تا حال لاپتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایران کے سابق سفارت کار واقعی حج کی غرض سے حجاز مقدس پہنچے تھے یا ان کی آمد کے کوئی دیگر خفیہ مقاصد تھے؟ تاہم ایران نے تسلیم کیا ہے کہ منیٰ حادثے میں اس کے چار سفارت کار جاں بحق ہوئے ہیں۔ ان میں لبنان میں ایران کے سابق سفیر غضفر رکن آبادی، وزارت خارجہ کے نمائندہ گیسٹ ہاﺅس و پروٹوکول شعبے کے معاون احمد فھیما، جمہوریہ ترکمانستان میں ایران کے سابق قونصل جنرل حسن حسینی اور سلوینیا میں سابق ایرانی سفیر محمد رحیم آئی شامل ہیں۔منیٰ حادثے میں بیجنگ میں ایران کے ساتھ سفیر مہدی صفری زخمی ہوئے ہیں۔ ایرانی حکام کی جانب سے کہا گیا ہے کہ حج کے لیے گئے پاسداران انقلاب کے کئی افسر تاحال لاپتا ہیں۔ پاسداران انقلاب کے لاپتا افسران میں علی فولادگر، حسن دانش، فواد مشغلی، عمار میر انصاری اور حسن حسینی شامل ہیں۔ یہ تمام عہدیدار ایرانی حج کمیشن سے وابستہ تھے۔
حجاج کرام میں ان ایرانی عہدیداروں کی موجودگی نے کئی شبہات اور سوالات بھی پیدا کیے ہیں۔ مبصرین یہ سوال اٹھانے پرمجبورہیں کہ آیا ایران کی جانب سے ایسے سینیر افسروں کی موجودگی کے بارے میں سعودی حکومت کو آگاہ کیوں نہیں کیا گیا۔ کیا ایران نے ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ حج کے دوران پیش آنے والے کسی بھی سانحے کو سیاسی رنگ دیا جاسکے۔ایرانی حکام کے متضاد دعوے
منیٰ میں بھگدڑ حادثے کے دوران جاں بحق اور لاپتا ہونے والے ایرانی شہریوں کے حوالے سے تہران حکومت کی طرف سے متضاد قسم کے دعوے سامنے آرہے ہیں۔ بعض ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ لاپتا ایرانی سفارت کاروں کو اغواءکیا گیا۔ کچھ کا دعویٰ ہے کہ انہیں قتل کردیا گیا ہے جب ایک گروپ کا یہ کہنا ہے کہ حج پرآئے سفارت کاروں کو سعودی پولیس نے گرفتار کر رکھا ہے۔ یہ تمام دعوے اپنی اپنی جگہ موجود ہیں مگر کوئی ایرانی عہدیدار اپنے دعوے کے ثبوت کے لیے دلیل دینے سے قاصر ہے۔
غضنفر رکن آبادی
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومتی عہدیداروں کے متضاد بیانات اور دعوﺅں کے پس پردہ سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بنانا اور منیٰ حادثے کی بنیاد پر سیاست کرنا ہے۔ منیٰ حادثے کی آڑ میں ایران، یمن میں سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی ممالک کی کامیابیوں کا بدلہ چکانا چاہتا ہے۔ نیز منیٰ حادثے پرسیاست چمکا کر کویت اور بحرین میں مداخلت پرتہران کو درپیش سبکی کو مٹانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔
سابق ایرانی سفیر مھدی صفری
ایرانی سپریم لیڈر کے مشیر برائے عالمی امور علی اکبر ولایتی کا دعویٰ ہے کہ سعودی عرب میں لاپتا ہونے والے تمام اہم عہدیدار حجاج میں شامل تھے۔ وہ تا حال لا پتا ہیں یا قتل کردیے گئے ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کو سعودی عرب کے سرکاری ذریعے سے یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ لبنان میں ایران کے سابق سفیر غضنفر رکن آبادی اپنے اصل نام کے تحت سعودی عرب میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ اس سال ایران سے حج پرآنے والے ایرانی حجاج کرام میں اس نام کا کوئی شخص نہیں تھا۔ رکن آبادی کی سعودی عرب میں حجاج کرام کی صفوں میں موجودگی کا پتا اس وقت چلا جب ایرانی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں بتایا کہ ایک سابق سفیر عام
پاسپورٹ پر حج کرنے گئے ہیں۔ ان کے پاس سفارتی پاسپورٹ نہیں تھا۔
ایران اور سعودی عرب میں حادثات کا تقابل
ایران نے سعوید عرب میں حج کے موقع پر منیٰ کے مقام پر پیش آئے حادثے کو تو خوب اچھالا اور اس کی آڑ میںریاض حکومت کو بدنام کرنے اور حجاج کرام کی اموات پرسیاست چکمانے کی بھرپور کوشش کی مگر خود ایران میں بھی اسی طرح کے واقعات نہ صرف رونما ہوچکے ہیں بلکہ ان میں ایرانی حکام کو قصور وار بھی قرار دیا جا چکا ہے۔
گذشتہ چھ جون کو ایران کے مشہد شہر میں ایک ہوٹل میں زہریلی ادویات کے استعمال سے 33 سعودی زائرین کی حالت خراب ہوگئی تھی۔ زہریلی ادویات کے استعمال کے نتیجے میں تین بچوں سمیت چار افراد کی جانیں بھی چلی گئی تھیں۔ ایرانی وزیر صحت حسن ہاشمی نے واقع کو متعلقہ حکام کی “دانستہ لاپرواہی” کا نتیجہ قرار دیا تھا مگر آج تک ان کے خلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔