واشنگٹن(نیوز ڈیسک) جمعرات کے روز اوریگون کمیونٹی کالج میں ہلاکت خیز فائرنگ کے واقعے کے تناظر میں امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے جذباتی بیان میں میڈیا کو چیلنج کر دیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ کیا میڈیا کے اداروں نے گزشتہ ایک دہائی میں دہشت گردوں کے حملوں میں ہلاک ہونے والے امریکیوں کی تعداد اور گن کرائم کی بدولت مارے جانے والی امریکیوں کی تعداد کا تقابلی جائزہ لیا ہے اورکیا اس تقابلی جائزے کو اپنی رپورٹوں میں پہلو بہ پہلو جاری کرتا ہے؟ ”ووکس ورلڈ“ کی رپورٹ کے مطابق اس ضمن میں دفتر خارجہ، محکمہ انصاف اور کونسل آن فارن ریلیشنز کی طرف سے فراہم کئے جانے والے اعدادوشمار کا جائزہ لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر برس گن وائلنس میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے اور اس کے مقابلے میں نائن الیون کے بعد دہشت گرد حملوں میں مارے جانے والی امریکیوں کی تعداد چند ایک ہے۔ اگر ان دونوں معاملات میں ہونے والی ہلاکتوں کا موازنہ کیا جائے تو سال 2001کے سوا باقی کے تمام برسوں میں گن کرائم کے مقابلے میں دہشت گردی سے ہلاک ہونے والوں کی شرح قریب صفر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر اس موازنے کو بنیاد بنایا جائے تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ہر سال گن کے ذریعے خودکشی کرنے والے امریکیوں کی تعداد گن کے ذریعے قتل ہونے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس نقطے کی وضاحت اوبامہ نے اس طرح کی ہے کہ ہم ہر برس دہشت گردی کیخلاف جنگ کیلئے بڑی رقوم خرچ کرتے ہیں لیکن قومی سطح پر اس کیلئے تیار نہیں ہیں کہ دوسرے معاملات میں چھوٹے قدم اٹھا لیں (جن میں ملکی سطح پر بندوق کی فروخت کی نگرانی وغیرہ شامل ہیں) تاکہ گن وائلنس کو روکا جا سکے۔ اوباما کا کہنا ہے کہ ہم بجا طور پر اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ٹریلین ڈالرز خرچ کر بیٹھے ہیں، لاتعداد قوانین منظور کر چکے ہیں اور پوری ایجنسیوں کو اس کام میں جھونک دیا ہے، دوسری طرف ہماری کانگریس ہے جو ہمارا راستہ اس کام کیلئے بھی روک لیتی ہے کہ ہم وہ اعداد وشمار ہی جمع کر لیں جن کے ذریعے یہ جائزہ لیا جا سکے کہ بندوق کے ذریعے ہلاکتوں کی شرح کیسے کم کی جا سکتی ہے۔