واشنگٹن(نیوزڈیسک)شام کے سرکاری ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ روسی جنگی طیاروں نے شام میں شدت پسند تنظیم داعش کے کئی اہداف پر بمباری کی ہے لیکن شامی حزبِ اختلاف نے الزام عائد کیا ہے کہ روس نے اپنی کارروائیوں میں باغیوں کے ٹھکانوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا ہے۔سرکاری ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ روسی جنگی طیاروں نے بدھ کو شام کے صوبوں حمص اور حما میں داعش کے کئی ٹھکانوں پر بمباری کی۔سرکاری ٹی وی نے شامی فوجی ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ روسی جنگی طیاروں نے اپنی کارروائی شامی فضائیہ کے تعاون سے انجام دی ہے۔رپورٹ کے مطابق یہ حملے روس اور شام کے درمیان بین الاقوامی دہشت گردی اور داعش کے خاتمے کے لیے طے پانے والے معاہدے کے تحت کیے گئے ہیں۔دریں اثنا شامی حزبِ اختلاف کے ایک رہنما نے دعویٰ کیا ہے کہ روسی طیاروں نے جن علاقوں پر بمباری کی ہے وہ داعش یا القاعدہ سے منسلک جنگجو وں کے زیرِ قبضہ نہیں ہیں۔شامی حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور باغی گروہوں کے نمائندہ اتحاد ‘سیرین نیشنل کولیشن’ کے سربراہ خالد خوجہ نے بدھ کوٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں دعویٰ کیا ہے کہ روسی طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں کم از کم 36 عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔خالد خوجہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی غرض سے نیویارک میں ہیں جہاں سے انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ روسی طیاروں کی بمباری سے کم از کم پانچ مقامات پر عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ روسی جنگی طیاروں نے بدھ کو شمالی حمص کے جس علاقے کو نشانہ بنایا ہے وہ علاقہ شامی باغیوں کے قبضے میں ہے جنہوں نے داعش کو وہاں سے ایک سال قبل نکال باہر کیا تھا۔صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے والے شامی باغیوں کے ایک کمانڈر نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ روسی طیاروں کی بمباری سے ان کے آٹھ جنگجو زخمی ہوگئے ہیں۔شامی حزبِ اختلاف سے منسلک باغی فوج فری سیرین آرمی کے ایک کمانڈر میجر جمیل الصالح نے خبر رساں ادارے کواسکائپ کے ذریعے بتایا ہے کہ روسی طیاروں نے حما صوبے کے جس علاقے پر بمباری کی ہے وہاں ‘فری سیرین آرمی’ کا ہیڈکوارٹر قائم ہے۔انہوں نے بتایا کہ روس نے حما کے جس شمالی علاقے پر بمباری کا دعویٰ کیا ہے وہاں داعش کا کوئی وجود نہیں اور وہ پورا علاقہ ‘فری سیرین آرمی’ کے قبضے میں ہے۔میجر جمیل 2012ءمیں شامی فوج چھوڑ کر باغیوں کے ساتھ آن ملے تھے اور اس وقت 1500 سے زائد باغی ان کی کمان میں سرکاری فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ فرانس کے ایک سفارتی اہلکار کے حوالے سے بھی دعویٰ کیاگیا ہے کہ روسی جنگی طیاروں نے داعش کے بجائے شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف سرگرم باغیوں کو نشانہ بنایا ہے۔فرانسیسی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ حمص شامی حزبِ اختلاف کےا تحاد سے منسلک باغی گروہوں کے قبضے میں ہے جس پر بمباری کا مطلب ہے کہ روس داعش کے خلاف نہیں بلکہ صدر اسد کی حمایت میں یہ فضائی حملے کر رہا ہے۔دریں اثنا روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے پیش کش کی ہے کہ ان کا ملک شام میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کو موثر بنانے کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر روس صدر ولادی میر پیوٹن اور وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری سے گفتگو کر رہے ہیںنیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر روس صدر ولادی میر پیوٹن اور وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری سے گفتگو کر رہے ہیں۔