اپنا قانونی دائرہ کار استعمال میں لا سکے۔اس مقدمے میں درخواست دہندگان نے اپنے موقف کو مضبوط بنانے کے لیے سعودی ریاست کے خلاف چند نئے الزامات کا سہارا بھی لیا تھا۔ لیکن یہ الزامات مثال کے طور پر ذکریا موسوی نامی اس مجرم کے بیانات کی روشنی میں لگائے گئے تھے، جو القاعدہ کا ایک سابق کارکن ہے اور اس وقت امریکا میں انہی دہشت گردانہ حملوں کے سلسلے میں اپنے کردار کی وجہ سے جیل میں قید کاٹ رہا ہے۔اس مقدمے میں درخواست دہندگان کے وکلاءنے کہا کہ وہ مین ہیٹن کی اس عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔ انہی وکلاءمیں سے ایک شین کارٹر نے کہاکہ سنایا جانے والا مین ہیٹن کی عدالت کا فیصلہ ہمارے حق میں اس لیے نہ ہو سکا کہ امریکی حکومت نے ان بہت سے شواہد کو خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیاکہ جو ہمارے لیے مددگار ثابت ہو سکتے تھے۔ شین کارٹر نے کہاکہ ظاہر ہے کہ ہم عدالت کے لیے احترام کے ساتھ لیکن اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہیں۔دوسری طرف اس مقدمے میں سعودی عرب کے ایک وکیل نے عدالتی فیصلے پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ عدالتی فیصلہ نائن الیون کے ان دہشت گردانہ حملوں کے 14 سال بعد سنایا گیا ہے، جن میں القاعدہ کے بہت سے دہشت گردوں نے ہائی جیک کیے گئے مسافر طیاروں کے ساتھ امریکا میں کئی مقامات پر ہلاکت خیز حملے کیے تھے۔ان 19 حملہ آوروں میں سے اکثریت کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ انہوں نے ہائی جیک کیے گئے اور مسافروں سے بھرے ہوائی جہازوں کو نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور واشنگٹن کے قریب پینٹاگون پر حملوں کے لیے استعمال کیا تھا جبکہ ریاست پینسلوانیا میں ایک مسافر طیارہ اس وقت زمین پر گر کر تباہ ہو گیا تھا جب مسافروں نے ہائی جیکروں کے خلاف مزاحمت شروع کر دی تھی۔