لاہور(نیوزڈیسک) پاکستان کی جانب سے برصغیر میں القاعدہ کے مبینہ مالی معاونت کار(فنانسر) شیببا احمد کی حالیہ گرفتاری اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان بالآخر اس حقیقت کا ادراک کرلیا ہے کہ پیسہ ہی دہشت گردی کے عوامل میں رگ جاں کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب اس نے اس حوالے سے فنڈنگ کے ذرائع پر نظر مرکوز کردی ہے۔ پاکستانی حکام کی جانب سے اس بارے میں کارروائی تاخیر سے ہوئی ہے لیکن اب کئے جانے والے اقدامات سے نیشنل ایکشن پلان کو اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں مدد مل سکے گی۔ اس سے قبل دہشت گرد پکڑے اور قتل کئے جارہے تھے لیکن ان کے اسپانسرز اور فنانسرز کے بارے میں اس سے قبل کچھ زیادہ نہیں سنا گیا تھا۔روزنامہ جنگ کے صحافی صابرشاہ کے تجزیہ کے مطابق دنیا دہشت گردوں کے مالی رابطے توڑنے اور پکڑنے میں پاکستان سے کہیں زیادہ آگے ہے۔ ایک معتبر ذریعہ کے مطابق 2006 میں دہشت گردوں کے دنیا بھر کے 1400 بینکوں میں 14 کروڑ ڈالرز مالیت کے اثاثے منجمد کئے گئے۔ گوکہ نائن الیون کے دہشت گرد حملوں پر5 لاکھ ڈالر خرچ ہوئے لیکن دیگر حملے اس سے کہیں کم رقم لگاکر کئے گئے۔ 2002 میں بالی ( انڈونیشیا) نائٹ کلب میں بم دھماکے کیلئے50 ہزار ڈالرز خرچ کئے گئے۔2004 میں اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ می ٹرین بم دھماکوں پر10 ہزار سے15 ہزار ڈالرز تک خرچ کئے گئے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ یورپی یونین میں 2006 میں دہشت گردی کے حوالے سے مقدمات میں783 گرفتار پوری میں سے8 فیصد دہشت گردی میں مالی معاونت کے شبہ میں ہوئیں