واشنگٹن (نیوز ڈیسک) ایک سال قبل امریکی صدر اوباما نے یوکرین میں مداخلت کے باعث روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ ملاقات سے انکار کردیا تھا اور رواں ماہ پھر دونوں رہنما ایک ہی شہر میں ہوں گے جبکہ وائٹ ہاوس میں اس حوالے سے مباحثہ جاری ہے کہ آیا مشرق وسطیٰ میں صورتحال مزید خراب ہونے سے قبل دونوں رہنماوں کو مسئلے کا کوئی حل نکالنے کے لئے ملاقات کرنی چاہیے یا نہیں۔ روس کی جانب سے شام کو فوجی سازوسامان کی فراہمی اور فوجی بھیجنے کے فیصلے پر اوباما انتظامیہ ناراض ہے اور اب بحث ہورہی ہے کہ دونوں ملکوں میں تعلقات بڑھائے جائیں یا روس کو تنہا کیا جائے۔ وائٹ ہاوس میں کچھ حکام کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن کا راستہ ماسکو سے جاتا ہے، اس لئے پیوٹن سے رابطہ کرنا چاہیے مگر دوسری جانب دیگر حکام کی رائے ہے کہ اس سے پیوٹن مزید طاقتور ہونگے اور یورپی اتحادی بھی اس فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کریں گے۔ ذاتی طور پر اوباما رابطوں کے قائل ہیں جیسا کہ انہوں نے ایران اور کیوبا کے ساتھ بھی کیا ہے مگر روس کے ساتھ ماضی میں رابطوں کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔ گزشتہ ہفتے ماسکو نے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا جس کے بعد امریکی حکام چاہتے ہیں کہ مزید ایک ہفتہ انتظار کیا جائے تاکہ شام میں اس کے اقدامات واضح ہوسکیں۔ اب کچھ روز میں صورتحال واضح ہوجائے گی۔