اسلام آباد(نیوز ڈیسک)امریکی صدر باراک اوباما نے عرب رہنماوں کے ساتھ ہونے والے سربراہی اجلاس کو کامےاب قرار دےتے ہوئے کہا ہے کہ اجلاس کا مقصد خلیج تعاون کونسل (جی سی سی )کے ساتھ واشنگٹن کے ساتھ پہلے سے موجود تعلقات کو ‘وسیع اور راسخ’ کرنا تھا۔نیوکلئیر طور پر مسلح ایران لاپروا اور خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس لئے ہر کسی کے مفاد ایران کا نیوکلیئر ہتھیار نہ رکھنا ہی ہے۔ واشنگٹن مےں العرےبےہ ٹی وی کو انٹر وےو دےتے ہوئے صدر اوبامہ کا کہنا تھا کہ کہ سمٹ میں شریک تمام رہنماوں کی خواہش تھی کہ امریکا اور جی سی سی رکن ممالک کے ساتھ پہلے سے موجود بہترین تعلقات کو مزید راسخ اور وسعت دی جائے۔ ایران کے بارے میں سوال پر صدر اوباما کا کہنا تھا کہ خطے میں تنازعات اور عدم استحکام کی کوششوں سے نپٹنے کے لئے مشترکہ صلاحیت حاصل کرنے کے منصوبے بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے چند ایران کے بارے میں پائی جانے والی تشویش کے بارے میں ہیں۔امریکا سمیت چھے عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان طے پانے والے متوقع جوہری معاہدے کے حوالے سے صدر اوباما نے کہا کہ خلیجی اتحادیوں کی جانب سے یہ کہنا درست نہیں کہ معاہدے سے ان کی سلامتی میں کمی آ جائے گی امریکا وضاحت سے یہ بات کہہ چکا ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے مسلح ایران لاپروا اور خطرناک ہو سکتا ہے اس لئے ہر کسی کے مفاد ایران کا نیوکلیئر ہتھیار نہ رکھنا ہی ہے۔ ایسی کوشش سے ایران کو بھی مثبت رویے کے اظہار کا موقع ملے گا۔” انہوں نے کہا کہ امریکا، جی سی سی ملکوں کے ساتھ ملکر مزید مشترکہ فوجی مشقیں کرے گا۔ “ہم سعودی قیادت کا بہت احترام کرتے ہیں میرا مرحوم شاہ عبداللہ سے خاص تعلق تھا، انہیں بہت یاد کیا جائے گا۔ محمد بن نایف انسداد دہشت گردی اور سیکیورٹی امور میں طویل عرصے تک ہمارے شریک کار رہے ہیں۔ ہم ان کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ پہلی مرتبہ ہمیں نائب ولی عہد کے ساتھ قریب سے کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ ہم نے انہیں صاحب معلومات، چست اور اپنی عمر سے کہیں زیادہ دانش مند پایا۔” اسرائیل فلسطین تنازع کے بارے میں سوال پر صدر اوباما نے کہا کہ مسئلے کے حل کے لئے دو ریاستی فارمولے پر عمل کرانے پر عزم ہےں دونوں فریقوں کے درمیان امن عمل شروع کرنے کے لئے اعتماد کو دوبادہ بحال کیا جائے۔انہوں نے کہا “کہ اسرائیل کو بلاشبہ اپنی سلامتی کے بارے میں جائز خدشات ہیں، اور یہ بات بھی کھلی حقیقت ہے کہ میں فلسطینی ریاست کے قیام کے بارے میں پرعزم ہوں۔””ہم نے بہت محنت کی، تاہم کسی لگی لپٹی کے بغیر، اسرائیلی کی داخلی سیاست اور فلسطینیوں کی اندرونی سیاست نے بھی دونوں فریقوں پر اعتماد کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ایسے میں کسی بڑی کامیابی کے لئے دونوں کا اعتماد بحال کرنا مشکل ہے۔”تاہم اس صورتحال کے علی الرغم، امریکا دونوں فریقوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے اقدامات کے ذریعے دوبارہ اعتماد بحال کرائے گا۔