اسلام آباد(نیوز ڈیسک)یورپی یونین کے ایگزیکٹو کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ ایک تجویز پیش کرنے جا رہا ہے جس میں یورپی ممالک سے کہا جائے گا کہ وہ غیر ملکی تارکین وطن کا دباو¿ مساوی طور پر کوٹا سسٹم کے ذریعے برداشت کریں۔ غیر ملکی خبر رسا ں ادارے کے مطا بق یورپی یونین کے رکن ممالک میں سے پانچ ریاستوں کے وزرائے دفاع نے پیرس میں ملاقات کی، جس میں انسانوں کی اسمگلنگ روکنے کے لیے ممکنہ یورپی عسکری مہم کے بارے میں مشاورت کی گئی۔اس ملاقات میں شمالی افریقہ سے غیرقانونی طریقے سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کے سیلاب کو روکنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی پر بحث بھی کی گئی۔ اجلاس میں فرانس، جرمنی، پولینڈ، اٹلی اور اسپین کے وزرائے دفاع نے حصہ لیا۔یہ اجلاس ایسے وقت پر ہو رہا ہے، جب حالیہ دنوں میں غیرقانونی مہاجرین کی متعدد کشتیاں بحیرہء روم میں حادثات کی شکار ہوئیں اور سینکڑوں افراد مارے گئے۔ کمیشن بدھ کے روز یورپی یونین کی مہاجرین سے متعلق نئی پالیسیاں پیش کرنے جا رہا ہے۔ اٹلی اور جنوبی یورپی ممالک کا مطالبہ ہے کہ یورپی یونین لیبیا سے سمندر کے ذریعے یورپ پہنچنے والے افراد کا دباو¿ کم کرنے کے لیے ان کی معاونت کرے۔یہ معاملہ اس لیے بھی شدت اختیار کر گیا ہے کہ حالیہ کچھ عرصے میں کئی ہزار افراد لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوششوں میں بحیرہ روم میں ڈوب کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔کمیشن کی تجویز ہے کہ یورپی ممالک مل کر مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دیں، اور یہ کہ صرف چند ممالک پر اس کا بوجھ نہیں پڑنا چاہیے۔ اس نئے پلان کے مطابق یورپی ممالک میں مہاجرین کی رہائش کے لیے ایک کوٹا مختص کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ تجویز اس وقت تک نافذ العمل نہیں ہوگی جب تک یورپی یونین کے تمام اٹھائیس رکن ممالک اس کی توثیق نہ کر دیں۔اٹلی، جرمنی اور آسٹریا کوٹا سسٹم کے حامی ہیں تاہم کئی یورپی ممالک اس کے حق میں نہیں ہیں۔مثال کے طور پر ہنگری نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے۔ اس بابت ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان کا کہنا ہے کہ یہ ایک پاگل پن پر مبنی تجویز ہے۔ بجائے یہ کہ یہ ممالک اپنی سرحدوں کو کنٹرول کریں یہ دوسرے ملکوں سے کہہ رہے ہیں کہ مہاجرین کو اپنے پاس رکھو۔ یہ ایک ناجائز تجویز ہیں لہٰذا ہم اس کی حمایت نہیں کر سکتے۔یورپی یونین کے اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار چودہ میں یورپی ممالک میں پناہ لینے والوں کی درخواستوں میں چوالیس فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ چھ لاکھ چھبیس ہزار تک پہنچ چکی ہیں۔خیال رہے کہ شام، لیبیا اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں جاری خانہ جنگی اور شورش کی وجہ سے وہاں کے بہت سے رہائشی ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں اور وہ لیبیا کے ذریعے اٹلی یا یورپ کے دوسرے جنوبی ملکوں تک پہنچنے کی سعی کر رہے ہیں۔