اور انہوں نے بھی پارٹی قیادت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔انتخابات میں 5 کروڑ ووٹرز کے لئے ملک بھر میں اسکولوں، سماجی مراکز اور گرجا گھروں کے علاوہ نجی املاک میں 50 ہزار کے قریب پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں عوام آن لائن ووٹ ڈالنے کے لیے بھی رجسٹر ہوئے۔ پارلیمانی انتخابات کے علاوہ برطانیہ کی 279 مقامی کونسلز کے 9 ہزار ارکان کے انتخاب کے لیے بھی ووٹنگ ہوئی اس کے علاوہ بیڈفرڈ، کوپ لینڈ، لیسٹر، مینز فیلڈ، مڈلزبرو اور ٹوربے میں میئر کا انتخاب بھی ہوا۔دوسری جانب کنزرویٹو پارٹی کے سربراہ ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ وہ امید کرتے ہیں کہ وہ پورے برطانیہ کا انتظام چلائیں گے۔کیمرون 10 ڈاو ننگ سٹریٹ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت کو واضح اکثریت حاصل ہو گئی ہے اور مہم میں جو وعدے کیے گئے ہیں ان کو پورا کیا جائے بشمول یورپی یونین کی ممبر شپ کے حوالے سے ریفرینڈم۔انہوں نے کہاکہ سکاٹ لینڈ کو اختیارات کی منتقلی کے وعدے کو پورا کیا جائے گا اور ایسا ہی ویلز اور شمالی آئرلینڈ میں بھی کیا جائے گا۔ تاہم ڈیوڈ کیمرون نے وعدہ کیا کہ ایسا کرنے میں انگلینڈ کے لیے بھی مناسب آئینی تصفیے کا خیال رکھا جائے گا۔ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ ایک نسل تک کنزرویٹو کی سب سے میٹھی فتح ہے اب ان کو لبرل ڈیموکریٹس کے ساتھ اتحاد کی ضرورت نہیں۔ڈیوڈ کیمرون نے وٹنی کی اپنی نشست جیتنے کے بعد کہا کہ وہ برطانیہ کی یورپی اتحاد میں رکنیت پر ریفرنڈم کروائیں گے اور کنزرویٹو جماعت کے اقتصادی منصوبے کو بھی عملی جامہ پہنائیں گے۔انھوں نے کہا کہ میرا مقصد بہت سادہ ہے کہ برطانیہ میں ایسے حکومت چلاوں جو کہ سب کےلئے ہو۔کیمرون کے مخالف ایڈ ملی بینڈ کی لیبر پارٹی کو سکاٹ لینڈ میں شدید دھچکا لگا جہاں برطانیہ سے آزادی کی حامی کی سکاٹش نیشنل پارٹی نے اس کا صفایا کر دیا ایس این پی ا ب تک 56 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے جن میں سے 40 ایسی نشستیں بھی ہیں جن پر گذشتہ الیکشن میں لیبر پارٹی جیتی تھیں۔