اسلام آباد(نیو زڈیسک)ایران کے ’سفید پوش‘ سمجھے جانے والے سابق صدر محمود احمد نڑاد کے منصب صدارت سے علےحدہ ہوتے ہی کرپشن کے الزامات سائے کی طرح ان کے ساتھ ایسے لگے ہیں کہ امکان ہے کہ ان کا باقاعدہ ٹرائل شروع ہوجائے۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق رواں سال جنوری میں تہران کی ایک عدالت نے سابق صدر کی مبینہ کرپشن سے متعلق ایک مقدمہ کی سماعت کے بعد انہیں جیل بھجوانے کی سفارش کی تھی۔ عدالتی فیصلے کے بعد کرپشن الزامات میں ان کا گھیرا مزید تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایرانی مجلس شوریٰ[پارلیمنٹ] کے بعض ارکان، ذرائع ابلاغ اور حکومتی عہدیداروں کے بیانات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ سابق صدر احمدی نڑاد کے دور میں قومی خزانے سے خوب ہاتھ صاف کیے گئے ہیں۔ یہ بیانات ہی سابق صدر کے خلاف چارج شیٹ کے لیے کافی ہیں۔کچھ ہی عرصہ قبل ایران کی ایک عدالت نے محمود احمدی نڑاد کے دورمیں نائب صدر کے عہدے پر فائز رہنے والے رضا رحیمی کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت پانچ سال کے لیے جیل بھیجا جا چکا ہے۔ عدالت نے انہیں قید کے ساتھ 1.3 ملین ڈالر جرمانہ کی سزا بھی سنائی ہے۔ایران کے سرکاری میڈٰیا کا کہنا ہے کہ سابق نائب صدر نے سرکاری انشورینس کمپنی کے ذریعے بڑے پیمانے پر مالی خورد برد کی ہے۔سزا یافتہ نائب صدر رضا رحیمی جیل سے سابق صدر احمدی نڑاد کو ایک مراسلہ بھی تحریر کیا ہے جس میں ان سے شکایت کی ہے کہ وہ مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے ہیں۔ انہوں نے خود یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ سنہ 2008ءکے پارلیمانی انتخابات میں 170 قدامت پسند امیدواروں کو کامیاب بنانے کے لیے 4 لاکھ ڈالر کے برابر رقم بہ طور رشوت ادار کرنے میں حکومت کی معاونت کی تھی۔ تاہم رحیمی نے یہ نہیں بتایا کہ رقم وصول کرنے والے امیداوروں نے رشوت کے بدلے میں کیا کرنا تھا تاہم ان کے خط میں ضمناً یہ اشارہ موجود ہے کہ یہ رقم اس لیے ادا کی گئی تھی تاکہ وہ صدر محمود احمد نڑاد کی حکومت کی حمایت کریں۔رضا رحیمی کے مراسلے کے منظرعام پرآنے قبل تک محمود احمدی نڑاد کرپشن الزامات سے مسلسل انکار کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ ان کا رضا رحیمی کے اقدامات کے ساتھ بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔کرپشن الزامات کے باوجود سابق صدر محمود احمدی نڑاد خود کو ملک کے سیاسی دھارے میں بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے انٹرنیٹ پراپنی ذاتی ویب سائیٹ بھی بنوالی ہے۔ یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ وہ پیش آئند پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کی بھی تیاری کررہے ہیں رضا رحیمی کے سابق صدر کےنام مکتوب کے انکشاف نے ملکی سیاست میں ایک ہلچل مچادی۔ ارکارن پارلیمنٹ نے عدالت اور پارلیمنٹ دونوں سے مطالبہ کیا کہ وہ رضا رحیمی کے مکتوب میں بیان کردہ ان ارکان کی نشاندہی کریں جنہوں نے سابق صدر کے دور میں رشوت وصول کی تھی۔خود محمود احمدی نڑاد اور بعض ارکان پارلیمنٹ کے درمیان بھی زبانی کلامی جھڑپیں ہوئیں۔ سابق صدر نے موجودہ پارلیمنٹ اور حکومت پر معاشی بد انتظامی اور سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے فیصلوں پرعمل درآمد میں کوتاہی کا الزام بھی عاید کیا۔اس پر رکن پارلیمنٹ احمد توکلی نے سابق صدر پرتنقید کرتے ہوئے کہا کہ محمود احمدی نڑاد کو اپنے اوپر لگے الزامات کا سامنا کرنا چاہیے۔ایرانی خبر رساں اداروں کے مطابق احمد توکلی کا کہنا تھا کہ خلاف قانون کام کرنے والے کسی بھی شخص کا ٹرائل ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں سابق صدر احمدی نڑاد کا ٹرائل بھی ضروری ہے کیونکہ وہ بھی خلاف آئین اقدامات کے مرتکب ہوئے ہیں۔سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پربھی سابق صدر محمود احمدی نڑاد کے جوڈیشل ٹرائل کے مطالبات میں شدت آ رہی ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائیٹ”فیس بک“ اور ا”انسٹا گرام“ پر”احمدی نڑاد کا ٹرائل کیا جائے“ کے مطالبے پر مبنی درجنوں صفحات بھی بنائے گئے ہیں۔ایران کی گارڈین کونسل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اگر پارلیمنٹ اور عدلیہ سابق نائب صدر رضا رحیمی کے مراسلے میں عاید الزامات کی تحقیقات کا حکم دے تو کونسل اس میں تعاون کرے گی۔ خیال رہے کہ گارڈین کونسل ارکان پارلیمنٹ اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے خلاف کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔ ایران میں جہاں ایک طرف پارلیمنٹ، حکومت اور سرکاری میڈٰیا میں سابق صدر محمود احمدی نڑاد کے دور میں ہونے والی کرپشن کے چرچے ہیں وہیں ایک گروپ ایسا بھی ہے جو سابق صدر کو تمام الزامات سے بری قرار دیتا ہے۔سابق صدر کے حامیوں کا کہنا ہے کہ محمود احمدی نڑاد پرالزام سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای پر الزام عاید کرنے کے مترادف ہے جن کی احمدی نڑاد کو غیر متزلزل حمایت حاصل رہی ہے۔