یمن (نیوزڈیسک )انسانی حقوق کی ایک تنظیم کا کہنا کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی افواج یمن میں حوثی جنگجوو¿ں کے خلاف ب تباہی پھیلانے والے کلسٹر بم استعمال کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے عام شہریوں کی زندگیوں کو طویل مدتی خطرات کا سامنا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ اتحادی افواج نے جنوبی یمن کے صوبے صدا پر عام آبادی والے علاقوں میں ان بموں سے حملہ کیا ہے۔ صوبے صدا حوثیوں کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق ایسے تصویری اور ویڈیو شواہد ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کلسٹربم امریکہ کی جانب سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو فراہم کیے گئے ہوں۔دوسری جانب سعودی عرب نے یمن میں کلسٹر بم پھیکنے کی تردید کی ہے۔ اور کہا ہے کہ حوثی باغیوں کے خلاف زمینی آپریشن کی اطلاعات بھی حقائق پر مبنی نہیں ہیں۔واضع رہے کہ کلسٹر بم کے ذریعے ایک وسیع علاقے پر چھوٹے چھوٹے بم گراتے ہیں جو اگر فوری طور پر نہ بھی پھٹیں تو زمین میں دھنسے جانے کی وجہ سے آبادی کے لیے خطرناک ہوتے ہیں۔ایک معاہدے کے تحت دنیا کے 116 ممالک نے ان بموں کے استعمال پر پابندی لگائی ہوئی ہے لیکن سعودی عرب ان ممالک میں شامل نہیں ہے امریکہ اور سعودی اتحاد میں شامل دیگر ممالک نے بھی پابندی کے اس معاہدے پر دسخط نہیں کیے ہیں۔ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ایک مبینہ کلسٹر بم یمن میں آلِصفرا کے علاقے المارا پر گرایا گیا ہے۔تنظیم نے اپنی ویب سائٹ پر اس حملے کی تصاویر بھی شائع کی ہیں جن میں ایک امریکی کمپنی کے تیار کردہ CBU-105 نامی کلسٹر بم کی باقیات دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہ وہ بم ہیں جو حالیہ برسوں میں امریکہ کی جانب سے سعودی عرب اور متحدہ عب امارات کو فراہم کیے گئے ہیں۔دوسری جانب سعودی عرب نے کلسٹر بم استعمال کرنے کی تردید کی ہے۔بعض ذرائع کا کہنا تھا کہ عدن میں اتحادی افواج کے زمینی دستوں کو دیکھا گیا ہے۔گو کہ آزاد ذرائع سے اس خبر کی تصدیق نہیں کی ہے۔سعودی عرب کی فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ یمن کے شہر عدن میں حوثی باغیوں کے خلاف زمینی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔یاد رہے کہ حوثیوں کے خلاف جاری سعودی عرب اور اس کے اتحادی فضائی کارروائی میں اب تک 12 سو سے زیادہ افراد ہلاک اور 3 لاکھ افراد اپنے گھربار چھوڑنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں