اسلام آباد(نیوز ڈیسک)افغانستان میں قیام امن کے لئے افغان وفد قطر پہنچ گیا جہاں وہ طالبان کے نمائندوں کے ساتھ کھلی بات چیت‘ کرے گا۔ غیر ملکی خبر رسا ں کے مطا بق یہ ملاقات جو ایک علاقائی کانفرنس کا حصہ ہے افغانستان میں جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے باضابط مذاکرات کی طرف پہلا قدم ثابت ہو سکتی ہے لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ طالبان کے رہنما ملا عمر کو اس کی منظوری حاصل ہے کہ نہیں کیونکہ گزشتہ کئی برس سے وہ منظر عام پر نہیں آئے۔پاکستان کے فوجی سربراہ راحیل شریف نے افغان صدر اشرف غنی کو فروری میں بتایا تھا کہ طالبان کی اعلیٰ قیادت کابل کی حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن ابھی تک اس ضمن میں پیش رفت کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔برطانوی خبررساں ادارے کو افغان امن کونسل کے نائب سربراہ عطا اللہ الدین نے بتایا ہے کہ اتوار اور پیر کو ہونے والی بات چیت میں حصہ لینے والا افغان وفد بیس ارکان پر مشتمل ہے۔انھوں نے کہا کہ ’کھلی بات چیت افغانستان میں امن قائم کرنے کی بنیاد پر ہو گی اور اس میں افغانستان، پاکستان، طالبان اور کچھ اور اداروں کے نمائندے شامل ہوں گے۔ماضی میں افغانستان میں مصالحت کرانے کے لیے کی جانے والی کوششیں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ اس طرح کی ایک کوشش سنہ 2013 میں بھی کی گئی تھی اور اس کے تحت امریکہ کے کہنے پر قطر میں طالبان کا دفتر بھی قائم کیا گیا تھا۔طالبان نے حالیہ دنوں میں بات چیت سے زیادہ لڑائی کی طرف اپنا جھکاو¿ ظاہر کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے طالبان جنگجو قندوز کے بیرونی اظلاع میں داخل ہو گئے تھے۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تصدیق کی ہے کہ قطر میں ہونے والی کانفرنس میں طالبان کا ایک آٹھ رکنی وفد شرکت کرے گا۔اس کانفرنس کا اہتمام مذاکرات کے ذریعے تنازعات کے حل کو فروغ دینے والی بین الاقوامی تنظیم پگواش کونسل نے کیا ہے۔ پگواش کونسل کو امن کا نوبل انعام بھی مل چکا ہے۔طالبان کے ترجمان نے کہا کہ اس کانفرنس میں شرکت کرنے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی امن بات چیت یا مذاکرات ہو رہے ہیں۔ قطر میں موجود طالبان کے ایک نمائندے نے کہا ہے کہ طالبان اور افغان حکومتی وفد کے درمیان براہ راست بات چیت ہو گی۔