اسلام آباد(نیوز ڈیسک)’ڈاکٹر سب کے سانجھے ہوتے ہیں‘ کی کہاوت اس لیے مشہور ہے کیونکہ مسیحائی کا فریضہ انجام دینے والے رنگ ونسل اور مذہب و ملت کی قید سے آزاد ہو کر صرف انسانیت اور جذبہ خدمت خلق سے سرشار ہوتے ہیں۔ مگر ایران میں ایک ماہر امراض چشم شاید دنیا کے ان معدودے چند ایسے معالجین میں سے ایک ہیں جو انسانوں میں ’اپنوں‘ اور ’پرایوں‘ کے فرق کو مد نظر رکھ کران کا علاج کرتے ہیں۔ موصوف کے کلینک پر لگے بوڈز سے صاف دکھائی دیتا ہے وہ ایک مسیحا نہیں بلکہ عرب وعجم کی روایتی نفرت کے علم بردار ہیں کیونکہ انہوں نے کلینک کے بورڈ پر نمایاں کرکے یہ لکھ رکھا ہے کہ ”معذرت! عرب مریض تکلیف نہ کریں یہاں ان کا علاج نہیں ہوتا“۔ایران کے منفرد ڈاکٹرکا مختصر احوال العربیہ ڈاٹ نیٹ نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں بیان کیا ہے۔ موصوف کہنے کو ماہرامراض چشم ہیں مگروہ تمام مریضوں کو ایک نظر سے دیکھنے کے بجائے عرب وعجم کے بکھیڑوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کا کلینک مغربی ایران کے کرمان شاہ شہر میں واقع ہے۔ اپنی کلینک کے داخلی دروازے پرا±نہوں نے ایک بورڈ آویزاں کر رکھا ہے جس فارسی کے معروف شاعر ابو القاسم فردوسی کے اشعاربھی تحریر ہیں۔ فارسی دیوان ”شاہ نامہ“ کے شاعر فردوسی کا وہ شعربھی اس بورڈ کی زینت بنایا گیا ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ”اونٹنی کا دودھ اور گو کا گوشت کھانے کا کلچر عربوں سے ایران میں پہنچا کیونکہ عرب اس ذریعے سے ایرانی بادشاہ کا تاج حاصل کرنا چاہتے تھے“۔اسی بورڈ پر عرب دشمنی کے اسیر نے اخمینی بادشاہ ”قوروش [529 تا 560 قبل مسیح] کی شبیہ کی ایک تصویر بھی بنائی ہے اور اس کے پس منظر میں بنائے گئے نقشے میں ”خلیج فارس“ لکھا گیا ہے۔ اس کے بائیں جانب ایک عرب شہری کو اپنی اونٹنی کے ہمراہ دکھایا گیا ہے۔ اس عرب شہری کے ہاتھ میں گالف کی اسٹک ہے اور اس پر”اریبین گلف“ [Arabian Gulf] کے بجائے Arabian Golf لکھا گیا ہے۔چونکہ ایران کے صوبہ اہوازمیں عربی بولنے والوں کی اکثریت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی ڈاکٹر کی اس انوکھی حرکت پرسب سے زیادہ رد عمل بھی انہیں کی جانب سے سامنے آیا ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ”فیس بک“ کےایک پبلک فیگرصفحے ”لیالی الاھواز“ کے 11ہزار سےزاید ممبر ہیں اورا±نہوں نے ایرانی ڈاکٹرکے اس طرزعمل کی شدید مذمت کی ہے۔ بعض نے اسے نسل پرستانہ سوچ کا مظہر قراردیا۔ ایک صارف نے لکھا کہ”دیکھیے! ہم بھی کس طرح کے لوگوں کے درمیان رہتے ہیں؟“۔ ایک دوسرے عرب اھوازی کا کہنا ہے کہ ”یہ ایران کی عربوں سے نفرت کا اظہار ہے“۔ایک ایرانی بلاگر نے اسے جعلی تصویر اور پروپیگنڈہ قراردیا ہے جب کہ ایک دوسرے شخص نے اس کے جواب میں اسپتال کا مکمل ایڈریس اور اس کا فون نمبرتک سب کچھ پوسٹ کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ فوٹوشاپ کا کمال نہیں بلکہ سچ مچ میں ڈاکٹر’صاحب‘ کا اسپتال ہے۔ایرانی ادب بھی اہل عرب سے نفرت پرمبنی مواد سے بھرا پڑا ہے۔ 29 مارچ 2011ئ کو ایرانی میڈیا میں مصطفیٰ بادکوبہ ای نامی ایک شاعر کی طویل نظم شائع ہوئی۔”عربوں کا خدا“ کےعنوان سے لکھی گئی اس نظم میں شاعرکا کہنا ہے کہ وہ اس جنت میں بھی نہیں جائیں گے جس میں عرب ہوں گے۔ شاعر کے اس انداز بیان پربھی ایران کے اھوازی عرب باشندوں کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا تھا۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں