اسلام آباد(نیو زڈیسک)یمن سے متعلق اقوام متحدہ کے نئے خصوصی ایلچی خالد الیمانی نے الزام عاید کیا ہے کہ ان کے پیش رو جمال بن عمر نے حوثی شدت پسندوں کے ساتھ ساز باز کررکھا تھا اور وہ ان کی بغاوت کو سند جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے نئے خصوصی ایلچی نے ان خیالات کا اظہار نیویارک میں ”العربیہ“ سے خصوصی گفتگو کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ جمال بن عمرایک ایسی عظمت اور عزت حاصل کرنا چاہتے تھے جس کا حقیقت کی دنیا میں کوئی وجود نہیں ہے۔ ان کے بارے میں یمنی عوام کو یہ توقع تھی کہ وہ غیر جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بیانات میں توازن پیدا کریں گے مگرانہوں نے ایسا نہیں کیا۔خالد الیمانی کا کہنا تھا کہ 21 ستمبر 2014ء کے بعد سے جمال بن عمراپنی آئینی ذمہ داریوں کی حدود سے باہر ہوگئے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب حوثیوں نے یمن میں ایک منتخب اور آئینی حکومت کے خلاف بغاوت کردی تھی اور بن عمر حوثیوں کی بغاوت کو سند جواز فراہم کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ ان کے بیانات سے ایسے لگ رہا تھا کہ گویا حوثی ملک کے نجات دہندہ ہیں اوریمن میں جو کچھ ہو رہا ہےوہ جبرکے نظام کے خلاف آئینی انقلاب کی جدو جہد ہے۔الیمانی نے استفسار کیا کہ ”کیا بن عمرکے لیے صدر جمہوریہ کی موجودگی میں کسی نئی صدارتی کونسل کی بات کرنا مناسب تھی؟ کیا یمن میں کسی صدر کی نامزدگی جمال بن عمر کی ذمہ داری تھی؟۔خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے سبکدوش ہونے والے مندوب جمال بن عمر نے اخبار”وال اسٹریٹ جرنل“ کو دیے گئے ایک انٹریو میں کہا تھا کہ وہ حوثیوں اور یمنی حکومت کےدرمیان سمجھوتہ کرانے کے قریب پہنچ گئے تھے۔ سعودی عرب کی قیادت میں ”فیصلہ کن طوفان“ آپریشن نے ان کے کیے کرائے پرپانی پھیر دیا۔ الیمانی نے بن عمر کے اس بیان پر حیرت کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ بن عمر جس سمجھوتے کی بات کرتے ہیں وہ دراصل بن کمرے میں ان کے اور حوثیوں کےدرمیان ہونے والی ایک ڈیل تھی۔ یمن کے تمام دیگر نمائندہ گروپوں نے اسے مسترد کردیا تھا۔