اسلام آباد(نیوز ڈیسک)شام اورعراق میں سرگرم دولت اسلامیہ عراق وشام ”داعش“ نامی انتہا پسند تنظیم جہاں اپنے سخت گیر جہادی فکرو فلسفے کی ترویج کے لیے طاقت کا اندھا دھند استعمال کررہی ہے وہیں تنظیم سے وابستہ جنگجوﺅں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو بھی اسی راستے پر ڈالا جا رہا ہے۔حال ہی میں شام کے شمالی شہر حلب سے 35 کلومیٹر دور الباب شہر میں ایک داعشی کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی۔ 23 اپریل کونومولود کی ایک تصویر مائیکرو بلاگنگ ویب سائیٹ پر پوسٹ کی گئی۔ اس تصویر میں نومولود کو روایتی کھلونوں اور تحائف کے بجائے ایک پستول اور بم کے درمیان رکھے دکھایا گیا ہے۔ابو وردہ الرقاوی نامی داعشی جنگجو کے ”ٹویٹر“ اکاﺅنٹ پر پوسٹ کی گئی ننھے داعشی کی تصویر کے ساتھ اس کا ایک فرضی شناختی کارڈ بھی جاری کیا گیا ہے جس میں اس کا نام ”جراح“ لکھاگیا ہے اور کے والد کا نام ابو جراح جبکہ ماں کا نام ام جراح بتایا گیا ہے۔غالب امکان یہ ہے کہ یہ تصویرشام میں داعش کے گڑھ سمجھے جانے والے الرقہ شہر سے پوسٹ کی گئی ہے۔ تصویر کےساتھ پوسٹ کی گئی ایک ٹویٹ میں داعشی جنگجو نے لکھا ہے کہ ”یہ بچہ نہ صرف ہمارے لیے بلکہ آپ کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے“۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نولود داعشی بھی کل کلاں مخالفین کے گلے کاٹنے کی راہ پر چل سکتا ہے۔اگرچہ نومولود داعشی کی تصویر کو بڑے پیمانے پر انٹرنیٹ پرشیئرکیا جا رہا ہے تاہم یہ بات ثابت نہیں ہوسکی کہ آیا یہ واقعی کسی تازہ نومولود کی تصویر ہے یا کوئی پرانی تصویر اٹھا کر لگائی گئی یا اسے کمپیوٹر کے ذریعے مخصوص انداز میں تیار کرکے اس کے ذریعے مخصوص پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے۔خیال رہے کہ شام میں پچھلے چار سال سے جاری عوامی انقلاب کی تحریک کےدوران شامی حکومت کے ظلم وستم کے بدترین مظاہردیکھے گئے ہیں
مزید پڑھئے:بچھو ماں کا پیٹ کھا کر جنم لیتا ہے ماں کی عزت نہ کرنے والا شخص زمین کا بچھو ہے
وہیں داعش کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام کو انسانی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے مطابق شامی قوم اور بچوں پر مظالم میں اسد رجیم بھی مجرموں میں شامل ہے کیونکہ شہری علاقوں پر بمباری کے نتیجے میں لاکھوں افراد گھر بار چھوڑ کر پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبورہیں۔ پناہ گزینوں کے ہاں کیمپوں ہی میں بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ شامی حکومت کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق صرف الزعتری پناہ گزین کیمپ میں 3000 بچے پیدا ہوچکے ہیں۔دربہ در کی ٹھوکریں کھانے والی شامی خواتین کبھی فیلڈ اسپتالوں میں زچگی کے مراحل سے گذرتی ہیں اور کہیں سڑکوں اور چوراہوں پر بچوں کو جنم دینے پر مجبور دکھائی دیتی ہیں۔ ان نومولودوں کا اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے پناہ گزین کے علاوہ کسی سرکاری ریکارڈ بھی مرتب نہیں ہوپاتا۔شامی حکومت کے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ حکومت الزعتری کیمپ کو ختم کرنا چاہتی ہے اور کیمپ میں موجودشامی پناہ گزینوں کو دوسرے کیمپوں میں ٹھونسے جانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اس وقت الزعتری پناہ گزین کیمپ میں 85 ہزار افراد قیام پذیر ہیں اور حکومت ان کی تعداد کم کرکے 30 ہزار تک لانا چاہتی ہے۔