اسلام آباد(نیوز ڈیسک)بر طانیہ میں انتہائی کم سن بچوں کا ریپ اور ان کا جنسی استحصال کرنے میں ملوث مختلف افراد کے ایک گروہ کے چند اراکین کو بچوں کے خلاف جنسی استحصال اور جنسی جرائم کا مجرم قرار دے دیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق انھوں نے اس سے ’نفرت انگیز اور اخلاق باختہ‘ جرم اس سے قبل نہیں دیکھا جس میں برطانیہ بھر سے افراد میں ملوث تھے جو بچوں اور انتہائی کم سن بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کیا کرتے تھے اور اسے انٹرنیٹ پر لائیو سٹریم کر کے دوسرے اراکین کے ساتھ شیئر کرتے تھے۔گروہ کے اراکین میں 49 سالہ جون ڈینہم، 34 سالہ میتھیو سٹینفیلڈ نے بچوں کے خلاف جنسی جرائم کی منصوبہ بندی کے جرم سے انکار کیا ہے۔تاہم ان پر برسٹل کی کراو¿ن کورٹ میں جرم ثابت ہوا جبکہ گروہ کے پانچ اور ارکین نے اپنے جرائم کا اعتراف کر لیا تھا۔اس گروہ نے انٹرنیٹ کو بچوں کے جنسی استحصال کے لیے استعمال کیا اور حاملہ خواتین کو اس مقصد کے لیے اپنے چنگل میں پھنسانا شروع کیا ہوا تھا تا کہ استحصال کے لیے نئے بچے حاصل کیے جا سکیں۔ایک ایسے ہی کیس میں انہوں نے بچے کی پیدائش سے قبل اس کے ماں اور باپ کو پھنسا لیا تھا اور اس جرم کے لیے تیار کیا۔برطانیہ کی قومی جرائم کے انسداد کی ایجنسی کے حکام نے اس تفتیش کی قیادت کی اور کہا کہ یہ جرائم اب تک اس کے تفتیش کردہ جرائم میں سے سب سے زیادہ ’نفرت انگیز اور اخلاق باختہ‘ تھے۔اس سے قبل ایک جیوری نے اداکار ڈینہم جن کی عمر 49 سال ہے اور ان کا تعلق ولٹشائر سے ہے اور جنہیں اس سے قبل بینجمن ہارپ کہا جاتا تھا کو 13 سال سے کم عمر کے بچے کو جنسی استحصال کا نشانہ بنانے کا مجرم قرار دیا تھا۔سٹینفیلڈ جن کا تعلق ہیمپشائر سے ہے کو 13 سال سے کم عمر بچے کا ریپ کرنے کی کوشش کا مجرم پایا گیا تاہم ڈینہم کو اسی جرم سے بری کر دیا گیا تھا۔اس تفتیش کے نتیجے میں تین بچوں کی شناخت ہوئی جو اس گھناو¿نے جرم کا نشانہ بنے جن میں سے ایک انتہائی کم سن بچہ، ایک کم سن بچہ اور ایک کم عمر بچہ شامل ہیں جنہیں ان مردوں نے استحصال کا نشانہ بنایا جنہوں نے ان کے ولدین کا اعتماد حاصل کر لیا ہوا تھا۔ان کی ملاقات انٹرنیٹ پر ہوئی اور انہوں نے موقع ملنے پر یہ جرائم کرنے کے لیے گھنٹوں کی مسافت طے کی۔اس گروہ نے ان بچوں کو نشہ آور اشیا دینے کے بارے میں بھی بات کی اور ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ان بچوں کے استحصال کو براہِ راست نشر کیا تاکہ دوسرے گروہ کے رکن دیکھ سکیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ ان کا شکار بننے والے اور بھی بچے ہیں اور 21 کے قریب بچوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں جن کو خطرہ لاحق تھا۔ان افراد کی جانب سے ثبوت تباہ کیے جانے کی کوششوں کے باوجود پولیس ان کے آن لائن چیٹ یعنی گفتگو کے ریکارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی جن میں اس طرح کے کمنٹس تھے کہ ’میں بہت ہی کم سن بچوں میں دلچسپی رکھتا ہوں‘ یا جتنا ہی اخلاق باختہ ہو اتنا ہی بہتر ہے۔‘اس تفتیش سے حاصل شدہ مواد جس سے دوسرے اس نوعیت کے مجرموں تک رسائی ممکن ہے کو دنیا کے پانچ براعظموں کی پولیس کو بھجوایا گیا ہے۔